عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک دم پُرانے پاکستان کا سوئچ پھر کسی نے آن کر دیا ہے۔ پُرانے پاکستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ آمنے سامنے تھے، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست تھی، الزامات بھی تھے، ایک دوسرے کی حُب الوطنی بھی چیلنج ہوتی تھی، اور ایک دوسرے کو گیٹ نمبر چار کی پیداوار اور بی ٹیم وغیرہ کے طعنے بھی دیے جاتے تھے۔
سیکورٹی رسک، مودی کے یار، لُوٹ مار اور پیٹ سے پیسے نکالنے کے دعویدار برسر پیکار تھے۔
پیپلز پارٹی ن لیگ پر اُسامہ بن لادن کی سرمایہ کاری، راولپنڈی کی زرخیز زمین کی آبیاری اور ضیاءالحق کی نیابت داری کے جوابی حملے کرتی اور یوں جیالوں اور متوالوں کا لہو گرم رہتا۔
اس سیاست کے بیچ پھر نیا زمانہ آیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی روایتی جنگ میں تحریک انصاف نے کچھ جگہ بنائی اور کچھ جگہ دے دی گئی۔
تن من دھن پی ٹی آئی کی محبت میں لگا دیا گیا اور یوں ایک ایسی پراڈکٹ تیار ہو گئی جس پر فخر کیا جا سکتا تھا۔
پی ٹی آئی کا ثمر تیار اور فیض لینے کا مناسب وقت بھی آ پہنچا مگر مطلوبہ نتائج نہ مل سکے اور عوامی دباؤ سے بچنے کے لیے پراجیکٹ سے دوری اختیار کی جانے لگی۔
ساڑھے تین سال کی سیاست نے مقتدر حلقوں کو باور کرا دیا کہ اب لاتعلقی نہ دکھائی تو آنے والے حالات اُن کے لیے بھی پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔
تدبیر کے شاطر کو مات ہوئی تو وطن عزیز کے زمینی حقائق سامنے آنا شروع ہوئے، دھیرے دھیرے ایک ہی ٹوکری میں اکٹھے کیے انڈوں کو مرغی کے پروں سے نکالا گیا اور پھر متبادل کے لیے خالی جگہ کا بورڈ یوں آویزاں کیا گیا کہ بھرم رہ جائے اور شکوہ بھی نہ ہو۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی دونوں اپنی جگہ واپس جانے کی کوششوں میں ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں واپسی کی متلاشی اور ن لیگ کی قیادت اپنے مقدمات سے جان چُھڑانے کی جستجو میں۔
ن لیگ میں بیانیے کی جنگ اب ‘دورانیے’ کی جنگ میں بدل چُکی ہے جبکہ تحریک انصاف اگلے تین ماہ کی سیاست پر فوکس کیے ہوئے ہے۔
اس دوران قلیل المدتی خورشید شاہ فارمولا بھی زیر بحث رہا اور پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کے پروپوزل بھی میز پر آئے۔ ان میں کچھ موجود اور کچھ اب زائل ہو چکے۔
مسلم لیگ ن چاہے تو اِن ہاؤس تبدیلی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ذرائع تیس سے زائد اراکین اسمبلی کے ن لیگ کی ٹکٹ کی شرط پر تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تاہم ن لیگ کی جانب سے پہلے مرحلے میں مریم نواز کی سیاست میں انٹری اور دوسرے مرحلے میں مائنس شریف کسی بھی شخص کو وزیراعظم تسلیم نہ کرنے کی ضد ایک رکاوٹ رہی ہے۔
بہر حال شہباز شریف کے نام آمادگی کا قرعہ نکل آیا ہے جس کا اظہار حال ہی میں شاہد خاقان عباسی صاحب نے کر بھی دیا ہے تاہم یہ ٹرین بھی جلدی نہ کرنے کی صورت ن کے ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔
پیلز پارٹی قلیل المدتی حکومت کے لیے وزیراعظم دینے پر تیار دکھائی دیتی ہے اور سندھ سے ایک شخصیت آئیڈیل قرار دی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی این اے 133 کے انتخاب میں اپنی کارکردگی سے مطمئن کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہے اور پنجاب کے چیدہ چیدہ حلقوں میں اپنے قدم جمانے کے لائحہ عمل ترتیب دے رہی ہے۔
سب سے اہم سوال تحریک انصاف کی سیاست کا ہے۔ وزیراعظم عمران خان آئندہ تین ماہ میں طوفانی سیاست کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
شاید اپنی جماعت اور کارکردگی کے تاثر کو ٹھیک نہ کر پائیں لیکن اہم تعیناتیوں اور اُس کے نتیجے میں ممکنہ تبدیلیوں سے سیاست کا رُخ ضرور بدل سکتے ہیں۔
تحریک انصاف سیاست سے مکمل باہر نہیں البتہ آئندہ کی سیاست میں اہم بیانیے کے ساتھ واپسی کی تیاری کر سکتی ہے۔
اگلے تین ماہ سیاست کے کھلاڑیوں کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں اس میچ میں کوئی کھلاڑی ہلکا نہیں البتہ کس میں کتنا دم ہے اس کا اندازہ مارچ سے پہلے ہو جائے گا۔
خدا کرے کہ اب کوئی اور سانحہ نہ ہو۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ