وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6 دسمبر 1941ء کی سرد شام کچھ لوگ ایک ارتھی لے کر راوی کے کنارے پہنچے۔ سوگواروں کے اس ہجوم میں ہندو، مسلم ، سکھ بھی تھے اور لاہور کے مصور اور ادیب بھی۔ اس شام شیشم کے گھنے پیڑوں کے نیچے جس چتا کو آگ دکھائی گئی وہ جدید ہندوستان کی حقیقی معنیٰ میں پہلی مصورہ امرتا شیر گل کا جسد خاکی تھا۔امرتا کی بھوبھل راکھ کو راوی کی منہ زور لہریں دم بھر میں بہا کر جانے کہاں لے گئیں لیکن برصغیر کی مصوری پر اس کے فن کا ان مٹ نقش آج بھی قائم ہے۔
جدید مصوری رنگ اور لکیر ، روشنی اور سائے نیز حجم اور فاصلے کے بنیادی زاویوں کی مدد سے فلسفیانہ خیال ، جمالیاتی تصور ، نفسیاتی کیفیات ، تاریخی تاثر اور سیاسی رائے کے اظہار کی کوشش ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایسی سہ جہتی مصوری کی تاریخ سو برس سے زیادہ نہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں یورپی اثرات کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی مصوری میں ایک طرف تو بنگالی سکول تھا جس میں ہر شکل کالی گھاٹ کی سوم رس لہروں پر گوپیوں کی طرح اٹھلاتی اور مرلی کی دھن جیسی بل کھاتی تھی۔ دیکھنے والے کا ناریل حیرت اور مسرت سے جنوبی ہند کی معروف تاڑی کی طرح بھک سے اڑ جاتا ہے لیکن آخری تجزیے میں یہ مصوری بحیرہ بنگال کی موجوں پہ نقش برآب ثابت ہوتی کہ اس سے فہم میں نیا زاویہ پیدا ہوتا ہے اور نہ خیال کو ایسا ترفع نصیب ہوتا ہے جہاں فن بصیرت کی تال پر نرت کرتا کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔
دوسری طرف یورپ سے آنے والی یورپی سیاح مصور تھے۔ انہیں پیچھے دیس میں اوسط درجے کے خریداروں کے سطحی ذوق کا خیال رکھنا ہوتا تھا۔ یہ مصور ہمالہ کی برف پوش چوٹیوں کی ترائی میں سپیروں، انڈا برابر موتیوں کی لڑی پہننے والے نوابوں اور تانبے جیسی رنگت والی ناچ گرلز کی ہوا باندھتے تھے۔ ایسی اشتہاری مصوری میں ہندوستان کا دھڑکتا ? کلبلاتا اور سسکتا پر مغز چہرہ مصور سے بارہ پتھر دور رہ جاتا تھا۔ سو ہندوستانی مصوری کے اس بے آب و گیاہ منظر میں امرتا شیر گل کی آمد گویا ہولے سے چلی باد نسیم !
30جنوری 1913کو ہنگرین ماں اور امرتسر کے سردار امراﺅ سنگھ مجیٹھیا کے ہاں پیدا ہونے والی امرتا شیر گل نے پانچ برس کی عمر ہی میں رنگ اور برش سنبھال لیے تھے۔ مصوری سے اس کے شغف کو دیکھتے ہوئے والدین نے اسے اٹلی بھیجا تاکہ مائیکل اینجلو اور ڈاو¿نچی کی سرزمیں کے اساتذہ سے استفادہ کر سکے۔ لیکن امرتا کا تخلیقی وفور تو ایک وحشی صفت غزال تھا جو مکتبی حدود و قیود سے ماورا میدانوں میں رم کرنا چاہتا تھا۔ فنون عدلیہ کے اطالوی مدرسوں میں طریقہ تدریس فرسودہ تھا جس میں خیال کے جوڑا بند اکڑ کر رہ جاتے ہیں اور نظم و ضبط سخت تھا جس میں رند اور قلندر کا امتزاج فنکار کمھلا کر رہ جاتا ہے۔ امرتاا ٹلی سے بھاگ نکلی اور سیدھے باپ کے دیس پہنچی۔ قبل ازیں وہ 1921ءمیں ہندوستان دیکھ چکی تھی۔ تب اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ اب اسے ایک باشعور فنکار کی آنکھ سے ہندوستان دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ مگر جلد ہی والدین نے اسے پیرس بھیج دیا جہاں اس نے فائن آرٹس سکول میں داخلہ لے لیا۔ عالمی کساد بازاری کے اس زمانے میں اس نے قریب چھ برس جم کر کام کیا اور پیرس کے نامور مصوروں کی معیت میں کام کرنے کے نادر مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ لیکن اس کے سیماب صفت ذہن میں بار بار ہندوستان کو اپنے کینوس پر اتارنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی۔
1933ء میں امرتا تیسری بار ہندوستان آئی۔ اب اس کا ارادہ ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے کا تھا۔ 21سالہ نوجوان مصورہ نے کھلی آنکھوں سے ہندوستان دیکھا تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس نے پیرس کے فنی حلقوں میں ہندوستان کا شوخ رنگوں میں ڈوبا ، دھوپ میں نہایا ، سطحی اور شہوانی اہتزاز سے نچڑتا جو تصور قائم کیا تھا وہ حقیقت سے کس قدر دور تھا۔ امرتا نے جو ہندوستان دیکھا وہ اس کے اپنے لفظوں میں فلاکت، محرومی اور امکان کا لامتناہی منظر تھا جس میں تیز دھوپ میں تپے ہوئے بظاہر بدصورت چہروں میں حیران کن داخلی حسن تھا۔ چھریرے مردوں اور بانس کی کونپل جیسی کسی کسائی عورتوں کے بدن کی حرکت میں بے پناہ امکان اور چہروں پر مستقل کیفیات کی رنگا رنگی اور مناظر کے تنوع میں امرتا نے محسوس کیا کہ اس کے برش کو گویا راستہ مل گیا ہے۔ اس نے پشاور کے با رونق بازاروں سے لے تلہٹی تک ہندوستان کی سیر کی اور پھر جو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا تھا ، اسے کینوس پر اتارنا شروع کر دیا۔ کچھ ابتدائی کوششوں کے بعد امرتا کے موقلم سے ایسے شاہکار معرض وجود میں آئے جو دیکھنے والوں کے لیے جہان نو کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس نے سیزاں سے حجم کا اختصار اڑایا ، گوگاں سے مدھم رنگوں کا توازن لیا اور انہیں ایلورا اور اجنتا کی سکمار لکیروں کی چھب گات بخشی۔ یہ نسخہ نئی ہندوستانی مصوری کو امرتا کی دین تھا۔ اس کی تصویر ’تین لڑکیاں ‘ میں اظہار کی بلاغت دیکھیے۔ میں کیفیت کے انشعاع کا مشاہدہ کیجیے اور میں رنگوں کا ضبط ملاحظہ کیجیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امرتا لاہور کی دانشورانہ فضا میں آندھی کی طرح چھا گئی۔ اس کی شخصی بے نیازی اور چلبلاہٹ کی داستانی پھیلنے لگیں۔ لیکن اس کے زندگی سے بھرپور سانسوں کے تار دسمبر 1941ءکی ایک صبح اچانک ٹوٹ گئے۔
موت سے بہت کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ فن کار کی موت میں خاص بات یہ ہے کہ فن کا امکان زندہ رہتا اور آگے بڑھتا رہتا ہے، راوی کی لہروں کی طرح۔
چھ دہائیاں پہلے ڈاکٹر انور سجاد نے ایک مضمون میں لکھا تھا، ”پھر 1947ءمیں ہماری روایت کا مشترکہ سرمایہ بھی ریل گاڑیوں کے ڈبوں کی طرح تقسیم ہو گیا۔ اجتنا ، ایلورا، امرتا اور جمینی وغیرہ سب ہندو ہو گئے ۔ حد یہ ہوئی کہ امرتا شیرگل جو کہ ہماری اپنی تھی، جو ہمارا پنجاب تھی کسمپرسی کی حالت میں اب بھی عجائب گھر کے ایک کونے میں پڑی سسک رہی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس اس کی ایک ہی تصویر ہے اگر بہت سی ہوتیں تو لوگ ہمیں وحشی کہتے۔ کتنوں کو یہ معلوم ہے کہ یہیں پر مال روڈ کی دیال سنگھ مینشن ہی میں اس بے چاری کا سٹوڈیو تھا جس کا نام امرتا شیر گل تھا۔ “
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر