نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎اٹھائیس دن کی زندگی! ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمارا خیال ہے کہ صاحبان دانش اس بات کو سمجھ چکے ہوں گے کہ عورت ان اٹھائیس دنوں میں زندگی کی طرف بڑھتی ہے، انہی اٹھائیس دنوں میں زندگی کبھی اسے گلے لگاتی ہے اور کبھی منہ پھیر کر دور ہٹ جاتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ماہواری کتنے دن آتی ہے؟‘‘

’’سات دن‘‘

’’کس تاریخ پر آتی ہے؟‘‘

’’جی تقریباً، تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے آ جاتی ہے۔‘‘

تیزی سے ٹائپ کرتے ہوئے ہم نے لکھا، اٹھائیس دن کے بعد، اٹھائیس دن! ہم بڑبڑائے۔ ارے یاد آیا، اس سے ملتا جلتا ایک فلم کا بھی تو نام تھا، وہ سات دن! ان سات دنوں کے احوال سے فلم میں گویا زندگی کا منی ایچر نقشہ کھینچ دیا گیا تھا۔ تو کیا یہ اٹھائیس دن بھی عورت کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں؟ ہم نےسوچا۔ ہمیں یوں لگا کہ یہ دن مکمل کہانی ہیں، اٹھائیس دن کا چکر، جوعورت تمام عمر کاٹتی ہے۔

نشیب و فراز سے بھرپور اٹھائیس دن، جن میں عورت ہر دفعہ پاتال میں گرتی ہے، اٹھتی ہے ، سنبھلتی ہے، سر اٹھا کر پھر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ کچھ ہی رستہ طے کرتی ہے کہ اٹھائیس دن کا کھیل ختم ہونے کےبعد پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔

چلیے آپ کو یہ کہانی سناتے ہیں۔ اسے عورت کی زندگی کی کہانی کہہ لیجیے یا ماہواری کی! یا یوں کہہ لیجیے کہ پل پل جینے اور پگھلنے کی داستان!

ہر ماہ عورت چار مختلف کیفیات کے تلاطمُ سے گزرتی ہے، جو جسم میں ہر گھڑی بدلنے والے ہارمونز کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ماہواری کے آغاز کو پہلا دن گنا جاتا ہے۔

پہلے سات دن

بیضہ دانی یا اووری سے خارج ہونے والے ہارمونز کی سطح انتہائی نچلے درجے پر پہنچ جاتی ہے اور ساتھ ہی رحم سے ماہواری کا خون آنا شروع ہوجاتا ہے، جس کے ساتھ درد اور متلی عام ہے۔ خون کے مسلسل خروج سے جسم کمزوری محسوس کرتا ہے۔ خون بہنا، درد ، گیلے پیڈز کے ساتھ چلنا اور نارمل نظر آنے کی ایکٹنگ کرنا ایک عجیب ہیجان میں مبتلا کرتا ہے۔ دماغ میں پٹیوٹری گلینڈ صورت حال بھانپ کر اپنا کام تیز کر دیتا ہےاور ایسے ہارمونز بناتا ہے، جو بیضہ دانی کو پھر سے انڈہ بنانے کے کام پر لگا سکیں اور ماہواری بند ہو سکے۔ نتیجتاﹰ انڈے کے گرد سیلز سے ایسے ہارمون بنتے ہیں، جو موڈ بحال کر سکیں۔

سات سے چودہ دن

ماہواری رک چکی ہے، انڈا بتدریج بڑا ہو رہا ہے۔ پٹیوٹری گلینڈ تیزی سے ہارمونز بنا رہا ہے۔ ٹھیک چودہویں دن انڈے کا خول پھٹتا ہے اور انڈہ بیضہ دانی سے باہر نکل آتا ہے۔ ہارمونز کے اس سیلاب کے زیر اثر جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور بخار کی سی کیفیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ انڈے کا خول پھٹنے کے بعد اگلے چوبیس گھنٹے اہم ہیں، حمل اسی وقت ٹھہرتا ہے۔

چودہ سے اکیس دن

ان دنوں میں دو امکان ہو سکتے ہیں۔ اگر انڈہ بارآور ہو اور حمل ٹھہر جائے تو انڈے اور سپرم کے ملاپ سے بننے والے مستقبل کے انسان کو چار سیل اور آٹھ سیل کی سٹیج پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہارمونز کا سیلاب امڈ آتا ہے، جو حمل قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ ابھی تک یہ تیزی سے تقسیم ہوتے سیلز کا مجموعہ ہے، جو بیضہ دانی سے رحم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ سپرم اور انڈے کا ملاپ اس ٹیوب میں ہوتا ہے، جوبیضہ دانی یا اووری کو رحم یا یوٹرس سے ملاتی ہے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ انڈہ بارآور نہ ہو اور حمل نہ ٹھہرے۔ انڈے کی عمر چوبیس گھنٹے ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ تحلیل ہو جاتا ہے۔ حمل نہ ہونے کی صورت میں مختلف ہارمونز پیدا ہوں گے۔ خاتون ہر دو صورتوں میں مختلف کیفیات سے گزرتی ہے۔

اکیس سے اٹھائیس دن

اگر حمل نہ ٹھہرے تو ہارمونز کے زیر اثر جسم میں مختلف تبدیلیاں ہوتی ہیں، جنہیں پری مینسٹرؤل ٹینشن کہا جاتا ہے۔ کچھ خواتین چھاتی میں درد کی شکایت کرتی ہیں اور کچھ کا جسم پھول جاتا ہے۔ شدید غصہ، بے چینی، اضطراب اور نیند کی کمی عام علامات ہیں۔ ان میں کمی تب ہی آتی ہے، جب دوبارہ سے ماہواری شروع ہوتی ہے اور ہارمونز کا لیول نیچے آ جاتا ہے۔

لیجیے! اٹھائیس دن کی رولر کوسٹر کے بعد وہ چکر پھر سے شروع ہونے کو ہے، جو عورت کے جسم اور دماغ کو کبھی آسمان پہ لے جاتا ہے تو کبھی زمین پہ بری طرح سے پٹخ دیتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ صاحبان دانش اس بات کو سمجھ چکے ہوں گے کہ عورت ان اٹھائیس دنوں میں زندگی کی طرف بڑھتی ہے، انہی اٹھائیس دنوں میں زندگی کبھی اسے گلے لگاتی ہے اور کبھی منہ پھیر کر دور ہٹ جاتی ہے۔

یاد رکھیے! عورت کا ہاتھ تھامے رکھنا ہی اس مشکل کو کچھ سہل بنا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author