ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی ہاتھ چھڑا کر جانا چاہتا ہوتو اس کو روکا نہیں کرتے اس کو جانے دینا چاہیے کیونکہ وہ کب کا جا چکا ہوتا ہے بس ہاتھ چھڑانے کی رسم باقی ہوتی ہے ۔یہی کچھ بنگلہ دیش کے معاملہ میں ہوا۔وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا اور16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ محض انجام تھا اس افسوسناک کہانی کا ان تمام تر واقعات کا جو گزشتہ دو دہائیوں میں رونما ہوچکے تھے ۔1948 میں قائد اعظم کے مشرقی پاکستان کے دورہ کے دوران اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کا اعلان گویا وہ ابتدا تھی جس کا انجام 1971 میں دیکھنا پڑا۔
اردو سے نفرت محض اتفاقیہ نہیں تھی اس کے پیچھے ایک مکمل سوچ موجود تھی ۔1947 کے بعد جیسے جیسے وقت گذرا مشرقی پاکستان میں قومی یکجہتی کے بجائے بنگالی قومیت کا پرچار بڑھنے لگا۔بنگلہ زبان کی شدت کے ساتھ آبیاری ہونے لگی اور اس قومیت کے تعصب کی لپیٹ میں بنگالی سیاسی کارکنوں کے علاوہ عام شہری اور فوجی طبقہ بھی لپیٹ میں آنے لگا۔ہر قومی دن جس میں یوم آزادی ، قائد اعظم کا یوم وفات یا پھر یوم پیدائش ، چھ ستمبر کومنایا جانے والا یوم دفاع شامل تھے میں بنگالیوں کی عدم دلچسپی سے ان کے مستقبل کے سیاسی رحجانات کا اندازہ ہورہا ہے تھا ۔بنگالی سارجنٹ ظہور الحق کی برسی ، لسانی فسادات میں مرنے والوں کا شہید کہہ کر ان کی یاد میں پروگرام کرنا بتا رہا تھا کہ بنگالی مغربی پاکستان سے الگ سوچ رہے ہیں ۔
وقت گذرتا رہا بنگالی قومیت کی سوچ پروان چڑھتی گئی اور دو صوبوں کے مابین خلیج بڑھتی گئی ۔اس کا ادراک حکمرانوں کو نا ہوسکا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان زمینی فاصلہ تو پہلے سا ہے مگر محبتوں کا ، بھائی چارے کا ، یگانگت کا ، فکری اور شعوری فاصلہ بڑھتا جارہا ہے ۔اس وقت جماعت اسلامی ہی تھی جو دونوں صوبوں کے مابین اتحاد کی بات کررہی تھی اسلامی بھائی چارے پر زور دے رہی تھی ۔عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے جلسے الٹ دئیے اور سیاسی طورپر جماعت اسلامی کو بنگالیوں سے الگ کرکے کھڑا کردیا۔اور بنگلہ زبان اور بنگالی قومیت کی نمائندہ جماعت بن کر عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کی طرف سفر شروع کردیا۔
یہ وجہ تھی کہ عوامی لیگ کا حجم بڑھتا گیا اس کو بنگالیوں کی اکثریت کی تائید حاصل ہونا شروع ہوگئی ۔شیخ مجیب الرحمن کا قد کاٹھ مشرقی پاکستان کے کسی بھی سیاسی رہنما سے بڑا ہوگیا۔مشرقی پاکستان کی دیگر سیاسی قیادت جس میں نورالامین ، پروفیسر غلام اعظم ،مولوی فرید احمد ، خان عبدالصبور خاں اور فضل القادر چوہدری جیسے لوگ شامل تھے مجیب الرحمنٰ سے سیاسی ٹکر نہیں لے سکتے تھے ۔مولانا عبدالحمید بھاشانی ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو مجیب کو خاموش کراسکتے تھے اور اس کی ہر بات کا جواب دے سکتے تھے مگر ان میں مجیب جیسا جوش اور ولولہ نہیں تھا۔گویا مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن ہی واحد قدآور سیاست دان تھا جس کا طوطی بول رہا تھا اور بنگالی قوم اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
ان ہی حالات میں شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات پیش کردئیے اور ان چھ نکات نے مجیب کی سیاست کو بام عروج پر پہنچا دیا اور ان چھ نکات کے پہلے دو پوائنٹس کچھ یوں تھے کہ آئین میں حقیقی معنوں میں قرار داد لاہور کی بنیاد پر پاکستان کے ایک وفاق کا اہتمام ہونا چاہیے ،نظام حکومت پارلیمانی ہونا چاہیے ، براہ راست طریقہ انتخاب اور عام بالغ دہی کی اساس پر منتخب قانون ساز اداروں کو پوری فوقیت حاصل ہونی چاہیے اور دوسرا نقطہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت کا تعلق صرف دو امور یعنی دفاع اور امور خارجہ سے ہونا چاہیے باقی سب امور وفاق کو تشکیل دینے والی ریاستوں کی تحویل میں ہونے چاہیں۔ ۔اس ضمن میں مغربی پاکستان میں ایک سوال سب کو پریشان کرنے لگا کہ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات کو عام انتخابات میں عوامی حمایت حاصل ہوگئی تو پاکستان کا کیا بنے گا۔
یہی سوال پنڈی میں ہونے والی ایک کانفرنس جس کی صدارت جنرل یحیحیٰ کررہے تھے میں اٹھایا گیا اور یہ سوال گورنر مشرقی پاکستان وائس ایڈمرل ایس ۔ایم ۔احسن نے اٹھا لیکن ان کو یہ کہہ کر خاموش کردیا گیا کہ آپ فکر نا کریں۔مارچ 1970 میں جنرل یحیحیٰ نے ایل ایف او جاری کردیا۔یہ قانونی ڈھانچہ مجیب الرحمن کو قبول نہیں تھا۔کیونکہ اس کی دفعات 25 اور27 میں کہا گیا تھا کہ کوئی آئین اس وقت تک قابل نفاز نہیں ہوگا جب تک اس پر صدرمملکت دستخط ناکردیں۔اس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں اگر مجیب قومی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل کرلیتے ہیں تو چونکہ یہ اسمبلی ابتدائی 90 دنوں کے لیئے قانون ساز اسمبلی تھی تومجیب اپنے پیش کردہ چھ نکات پر مبنی آئین کو اس وقت تک نافذ نہیں کرسکے گا جب تک کہ اس کو صدر کی حمایت نا حاصل ہو۔اسی پر مشتعل ہوکر مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ میں انتخابات ختم ہوتے ہی ایل ایف او کے پرزے کردوں گا۔
اس کے بعد مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ میری جماعت آئندہ عام انتخابات کو چھ نکات پر ریفرنڈم سمجھتی ہے ۔اس اعلان کا مسٹر نورالامین نے نوٹس لے لیا اور کہا کہ اگر آئندہ عام انتخابات کو چھ نکاتی پروگرام پر ریفرنڈم تسلیم کرلیا گیا اور مغربی پاکستان نے اس کی حمایت نہ کی تو دونوں صوبے الگ ہوجائیں گے ۔جس پر مجیب الرحمن نے برہم ہو کر چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گاندھی ،نہرو اور ان کے سرپرستوں کی مخالفت کے باوجود 1946 کا ریفرنڈم جیت لیا تھا اور اس مرتبہ بھی نورالامین اور ان کے سرپرستوں (مغربی پاکستان)کی مخالفت کے باوجود فتح ہماری ہوگی۔اور یہی کچھ ہوا کہ 1970 کے عام انتخابات سے قبل ہی مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگالی اپنے سیاسی مستبقل کا فیصلہ کرچکے تھے ۔المیہ یہ ہے کہ جنرل یحیحیٰ خان جو درپردہ مجیب کی حمایت چاہتے تھے کہ وہ بدستور صدر رہ جائیں نے سیاسی معاملات کو اس حدتک بگاڑ دیا کہ پھر واپسی ناممکن ہوگئی اور یوں 16 دسمبر 1971 کو جوائے بنگلہ کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوااور ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ