دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎فیصل آباد کے خرابے میں کوئی مرد کہاں ؟ ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

دو دہائیاں گزرنے کے بعد نور مقدم کا جسم تن سے جدا کرنے والا جنگلی رحم کی اپیل کرتا ہے اور بچے پیدا کر کے زندگی گزارنے کا حق چاہتا ہے۔ شاید اپنے جیسے کچھ اور وحشی، کچھ اور عورتوں کا گلا کاٹنے کے لئے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مردوں کا ایک ہجوم ہے، باریش بھی موجود ہیں اور داڑھی منڈے بھی، عمر رسیدہ بھی ہیں اور جوان رعنا بھی، ضعیف بھی ہیں اور توانا بھی۔ لگتا ہے کہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی لیکن سب اکھٹے ہیں ۔ ایکا کئے ہوئے ہیں، کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں، باچھیں کھل رہی ہیں، ٹھٹھے لگائے جا رہے ہیں ۔

قدر مشترک کیا ہے اس ہجوم کی؟

عمر ؟ نہیں

وضع قطع؟ نہیں

رتبہ؟ نہیں

علم ؟ نہیں

مال ؟ نہیں

پھر کیا ہے آخر جو انہیں جوڑے ہوئے ہے ؟ کیا لذت ہے جو وہ مل کر کشید کرنے میں مصروف ہیں؟

سن لیجئے وہ سب کے سب نامرد ہیں !

جی صحیح سنا آپ نے سب نامرد!

جن مردوں کی دیوانگی، غصہ اور وحشت عورت کو سر بازار برہنہ کر دے اور پھر اس برہنہ پن کی فلم بنا کر دنیا میں عام بھی کر دے ، وہ مرد کیسے ہو سکتے ہیں بھلا ؟

بھرے ہجوم میں اگر ایک آواز بھی دو عورتوں پہ اس ظلم کے خلاف نہ اٹھے تو کیا یہ مردوں کا انبوہ ہو گا ؟

بخدا ہم لرز اٹھے ہیں دو عورتوں کے ننگ دھڑ نگ جسم بیچ مجمعے میں رحم کی بھیک مانگتے دیکھ کراور وہ رحم کسی کے دل میں نہیں اترتا۔ پاکستان کا چوتھا بڑا شہر، بھرا بازار اور دو ننگی عورتیں !

جرم ہے چوری، کچھ معمولی چیزوں کی چوری۔ سزا کیا ملی؟ جسمانی ذہنی، اور جنسی تشدد اور بے پناہ تشدد۔حکم دیا گیا،

اوڑھنی اتارو

قمیض اتارو

برا اتارو

شلوار اتارو

اور پھر ہجوم کو دکھاؤ

کیا دیکھا ہجوم نے ؟

دو جوان عورتوں کے پستان

بلکتی ہوئی دو عورتوں کی ویجائنا

زارو قطار روتی ہوئی دو عورتوں کے کولہے

لرزتے کانپتے دو جسم!

کیا بس یہی ؟

نہیں کچھ اور بھی دیکھا گیا

دور بہت دور آسمان سے پرے

خالق نے کچھ اور بھی دیکھا

نا مردوں کی ڈھٹائی

وحشیوں کی ہنسی

رزیلوں کا اختیار و جبر !

طاقتوروں کی کمزور کے جسم سے لذت کشی !

عورت کے جسم کو حقیر جان کر اس کو ذلیل کرنے کا تماشا !

سوچیے کیا ان نا مردوں نے کسی عورت کے ہی رحم سے جنم لیا تھا !

کیا ان جانوروں نے عورت کی ویجائنا کو ہی رینگتے کیڑے کی طرح پار کیا تھا ؟

کیا ان وحشیوں نے عورت کے پستان سے ہی زندگی حاصل کی تھی ؟

کیا ان کے گھر بیٹیوں نے جنم لیا؟ کیا یہ انہیں دفن کر آئے ہیں ؟ کیا ان کی بیٹیوں کے جسم کی حرمت ان جسموں کی عزت سے زیادہ ہے؟

ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت کی اس ذلت میں کس کس کا نام لیں؟

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

کہ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

کہتے ہیں کہ بیس برس کے بعد تو گھورے کے دن بھی پھر جاتے ہیں لیکن ہمیں لگتا ہے کہ غلط ہی کہتے ہی، پدرسری نظام کے تحت کچھ بھی نہیں بدلتا، کبھی نہیں بدلتا، کہیں نہیں بدلتا!

بیسویں صدی کے اختتام کا لاہور ہو، 2002 میں مظفر گڑھ جیسا نیم خواندہ قصبہ ہو، 2021 میں اسلام آباد کا جدید شہر یا فیصل آباد کا بھرا بازار۔ قبائلی نظام ہو، آزاد طور طریقے یا مذہبی اطوار، عورت کے لئے کچھ نہیں بدلتا، کبھی نہیں بدلتا، کہیں نہیں بدلتا۔

لاہور میں مشہور و معروف اداکارہ شبنم کے گھر میں گھس کر ریپ کرنا اور بعد میں قومی اسمبلی میں پہنچنے کو قبول کرنے سے یہ سمجھ لیا گیا کہ عورت کے جسم کو رگیدنا اور کرچی کرچی کرنا مرد کے لئے شرمندگی نہیں، مرد ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، خاص طور پہ ایک نامرد کے مرد ہونے کا۔

مظفر گڑھ میں مختاراں مائی کو مل کر ریپ کرنا اور ننگے بازار میں گھمانا ثبوت ہی تو تھا ان بزدلوں کی نامردی کا جو اپنی وحشت کا بورا عورت کی ذات میں انڈیلتے ہوئے بد مست ہوتے تھے۔

دو دہائیاں گزرنے کے بعد نور مقدم کا جسم تن سے جدا کرنے والا جنگلی رحم کی اپیل کرتا ہے اور بچے پیدا کر کے زندگی گزارنے کا حق چاہتا ہے۔ شاید اپنے جیسے کچھ اور وحشی، کچھ اور عورتوں کا گلا کاٹنے کے لئے۔

دو ہزار اکیس کا سورج غروب ہونے کو ہو اور دو عورتوں کی تذلیل کرنے کے بعد ان کی فلم بنا کر وائرل کر دی جائے تو یہ پوچھنا ہمارا حق بنتا ہے کہ زمانہ بدلنے سے کیا بدلاؤ آیا؟ کچھ بھی نہیں بلکہ شائد ہم نے ترقی کی ہے، عورت کو رسوا کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے میں۔

سننے میں آیا ہے کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں، اب مقدمہ چلے گا، کچھ دن لعن طعن ہو گی اور پھر یہی سب کچھ ہو گا، کسی اور شہر، کسی اور کوچے، کسی اور بازار!

ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی قانون اس جرم کی سزا دینے پہ قادر ہے؟ کیا عورت کو سر بازار برہنہ کرنے کی کوئی سزا، کوئی شق موجود ہے؟

فرض کر لیجئے کہ سزا مل بھی گئی تو کتنی ملے گی، کچھ برس ؟ یہ کہہ کر بالآخر چھوڑ دیا جائے گا کہ قتل تو نہیں ہوا ۔

کیا ان عورتوں کی بقیہ عمر زندہ عورتوں کی زندگی ہو گی؟ جان لیجیے کہ وہ تو روز مریں گی، روز جئیں گی جب تک خالق کے حضور اپنا تار تار ہوا جسم لے کر پہنچیں!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author