نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا اک لشکر||عفت حسن رضوی

اچھا خاصا سناٹا ہوتاہے اور سناٹا بھی وہ، جس میں کوئی آہٹ بھی شور جیسی سنائی دے۔ ہم گزشتہ ناگہانیوں کو بھول چکے ہوتے ہیں، سرد موسم کی انگڑائی پر ابھی دھیان ہی گیا ہوتا ہے کہ پھر کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا خاصا سناٹا ہوتاہے اور سناٹا بھی وہ، جس میں کوئی آہٹ بھی شور جیسی سنائی دے۔ ہم گزشتہ ناگہانیوں کو بھول چکے ہوتے ہیں، سرد موسم کی انگڑائی پر ابھی دھیان ہی گیا ہوتا ہے کہ پھر کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔

بلکہ یوں کہیے کہ کوئی سانحہ رونما کر دیا جاتا ہے اور خاموشی توڑنی پڑ جاتی ہے۔ سیالکوٹ میں توہین مذہب کو بنیاد بنا کر جو کچھ ایک سری لنکن غیر مسلم کے ساتھ کیا گیا ہے، اس پر اچھے سے اچھا کہنے لکھنے والے بھی اک لحظہ کو رک سے گئے ہیں، کچھ کہے نہیں بنتا، کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا کہ لکھیں بھی تو کس کے لیے؟

 مذہبی انتہا پسندی کی لو بڑے جتن سے لگائی گئی۔ اس لو سے چھوٹی چنگاری اُٹھی تو احباب وطن نے اظہار تشویش کیا، جب چنگاری شعلہ بنی تو صاحب فہم و دانش افراد نے خبردار کیا کہ یہ خطرناک ہے، اسے بجھا دو یا بچ کہ چلو۔ اب جبکہ ان شعلوں کو ہم نے پال پوس کر آگ بنا دیا ہے تو یہ بھوکی آگ سب کچھ نگلنے کو تیار ہے۔

افسوس، خوف اور بے بسی دیکھیے کہ مذہب کا مستقل ٹھیکہ انہی لوگوں کے پاس ہے، جو خود آگ کے ہاتھوں میں ہیں۔

مثلاً یہ معمولی سا فلسفہ مذہب کا سوال ہے کہ ترکیب ِ کائنات میں حضرت انسان کو ادیان کی ضرورت کیوں ہوئی اور ادیان میں الہامی پیغمبروں کی حاجت کیونکر ہوئی۔ ایسا ہی سوال بچہ بھی ماں کی گود میں یونہی کھیلتے کھیلتے پوچھ بیٹھتا ہے کہ ‘امی اللہ میاں کہاں ہوتے ہیں؟‘

مذہب کی ذیل میں فلسفہ اور منطق کے دسیوں ہزاروں مضامین آتے ہیں،مذہب ان کے جواب دیتا ہے کہیں واضح کہیں مخفی ، مگر ان جوابوں کا انحصار تو سوال پر ہے۔ ایک مذہبی ماحول اگر سوال پوچھنے یا سوال سوچنے کو سب سے بڑا جرم قرار دیدے تو وہاں صرف اندھے مقلد ہی باقی بچتے ہیں۔ آنکھوں والے ایسے معاشرے سے ہجرت کر جاتے ہیں۔

علامہ طالب جوہری اپنی کتاب عقلیات معاصر میں لکھتے ہیں ‘چونکہ انسانی فہم و فکر کی سطحیں مختلف ہیں لہذا یہ توقع رکھنا کہ ہر انسان ایک ہی سطح سے سوچے گا ایک خوش گمانی کے علاوہ کچھ نہیں، اختلافات کا پیدا ہونا فطری ہے۔‘

 آگے چل کر علامہ جوہری نے ایسے فکری اختلاف کے کئی حل دیئے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے کے نظریے اس طرح دیکھے گویا وہ اس کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو، اس سطح فہم سے سمجھنے کی کوشش کرے گویا وہ مخالف یا مختلف نظریے والے کی عقل سے سمجھ رہا ہو۔ ہم روزمرہ کے معاملات میں اپنے سطح فہم کو بلند کرتے ہیں کبھی پست یہی کام ایک معلم کا ہے کہ پہلے طالب علم کی سطح فہم و فکر تک اترے پھر اسے اپنے ساتھ اپنے معیار تک اوپر لے آئے۔

علامہ تو عالم وقت تھے ایسی باتیں لکھ گئے منبر سے کہہ گئے مگر خود سوچیں کیا موجودہ وقت میں جب کہ مذہب کے نام پہ غارت گری کو عروج ہے ایسے میں مذہبی مباحث کس قدر قابل قبول ہیں۔ عوامی سطح کیا آپ پڑھے لکھوں کی محفل میں کوئی مذہبی اختلافی مسئلہ اٹھا دیں نشست تلخی پہ برخاست ہوگی۔

مذہب یا مسلک پہ بات کرنا، اختلافات پہ بات کرنا، مذہبی تاریخ کی غلطیوں یا پھر کمزوریوں پہ بات کرنا یہ سب نو گو ایریاز ہیں۔ کہیں توہین رسالت کا ڈر ہے، کہیں کسی سوال کو توہین صحابہ کرام کا خوف ہے، اور کہیں سوال یونہی گلے میں اٹکا رہ جاتا ہے کیونکہ توہین مذہب کا ڈر ہوتا ہے۔

اسی بات پہ معروف شاعر جون ایلیا کا لکھا پیش لفظ یاد آگیا جو انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت پہ لکھاتھا، لکھتے ہیں ‘تقسیم سے پہلے کمیونسٹوں کے سلسلے میں مذہبی علما کا مجموعی رویہ تقسیم کے بعد ظہور میں آنے والے رویے سے یک سر مختلف تھا۔ ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علما ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہ راست پہ آجائیں گے۔ ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے نامہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ بہت پڑھ لیا ہے اس لیے ہضم نہیں ہوا۔ اس گردوپیش میں جو حدیثیں سننے میں آتی تھیں وہ یہ تھیں

علما کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے

کافر عالم، جاہل مومن پر فضیلت رکھتا ہے۔

جون ایلیا اور ان کے ہم عصروں نے جو زمانہ دیکھا وہ دیکھنے، سننے کے بعد سر دھننے کا تھا، وہ پڑھنے لکھنے کے بعد تنقید کرنے کا تھا، وہ سوچ سمجھنے کے بعد سوال پوچھنے کا تھا، وہ دور اصلاح و علم کی نیت سے اختلاف کرنے کا تھا۔ اب زمانہ بقول افتخار عارف چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا ہے۔

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا ایک لشکر، اور ایک اکیلا میں

مرے ہاتھ عصا سے خالی

ہاتھ عصا سے خالی ہوں تو لہر سمندر ہوجاتی ہے

موت مقدر ہوجاتی ہے

آج میں اور مجھ جیسے کئی لکھنے والے مذہبی مباحث سے کتراتے ہیں۔ ہم مذہبی تاریخ کو جاننے کے باوجود اس پہ اپنی رائے اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں، ہم مذہب کی موجودہ بگڑی ہوئی شکل پہ اظہار ناپسندیدگی تو کرتے ہیں مگر اس کے ذمہ دار کون تھے اور کون ہیں اس پہ بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔

 اس کی پہلی وجہ خوف کے سامنے خود ہمارا اعتراف شکست ہے، اور دوسری وجہ مذہبی ٹھیکیداروں کی سلگائی وہ آگ ہے جو بہت بھوکی ہے، جس کا پیٹ تب بھی نہیں بھرے گا جب یہ آشیانے کو نوالے کی طرح نگل جائے گی۔

یہ بلاگ ڈ ی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author