عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل یہ چاہتا ہے کہ کبھی تو دل نشیں لمحوں، خوبصورت جذبوں، چاند چہروں، گُلاب لہجوں کی بات لکھیں، کچھ تو مثبت، شیریں لکھیں۔
دل چاہتا ہے کہ درد کو درماں، سنگ دل کو مہرباں اور تپتی دھوپ کو سائباں لکھیں مگر بقول فیض احمد فیض ’لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجے‘ کیونکہ ’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔‘
دسمبر آ رہا ہے۔ دسمبر جب آتا ہے دل غم میں ڈوب جاتا ہے۔
دسمبر 16 پاکستان کے دو لخت ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان کی تقسیم سینے میں اس چبھن کی مانند ہے کہ نہ نکالی جا سکتی ہے اور نہ ہی رکھی جا سکتی ہے۔
اب سے چند سال پہلے تک سانحہ مشرقی پاکستان ہر 16 دسمبر کو ایک سُلگتی ہوئی یاد بن جاتا۔
ٹیلی ویژن سکرینوں پر پاکستان کے دو لخت ہونے کے دن کو محض تاریخ کے اوراق کی طرح پلٹ دیا جاتا۔
ریڈیو پر کوئی ایک آدھ غزل ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد‘ چلا دی جاتی۔
کوئی ایک آدھا حساس کالم نگار کوئی ایک آدھ صفحہ مشرقی پاکستان کے سانحے پر لکھ کو اپنا فرض ادا کر دیتا، کوئی شاعر کسی ادھ جلی سگریٹ کی راکھ میں شعر دفن کر دیتا، کوئی کہانی کار دبستان کسی ان لکھی کہانی میں لپیٹ دیتا اور کوئی فنکار یک جہتی کے دنوں کی مشترکہ فلم کا بینر چلا دیتا، گلوکار شہناز بیگم کی شہنائی سی آواز میں سوہنی دھرتی کا نوحہ پڑھتا اور کوئی راہنما گزرے دنوں کی یاد میں راہزنوں کی بپتا سُناتا۔
ان گزرے 50 برسوں میں کھوئی ہوئی ریاست میں صرف حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے اوراق ہی ملتے ہیں جو باقی بچ جانے والی قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بتاتے ہیں کہ یہ عمارت بھی کبھی عظیم تھی۔
پھر کیا ہوا کہ سانحے اچانک نہیں ہوتے بلکہ زمانے پرورش کرتے ہیں لیکن اگر سانحے دبا دیے جائیں تو اکثر ہو جایا کرتے ہیں۔
خیر، گئے دنوں کی باتیں ہیں، ہم سانحے روک نہیں سکے اور 16 دسمبر ہمیں ایک اور سانحہ دے گیا۔ سو سے زائد بچوں کے قتل کا سانحہ۔
سنہ 2014 کی دسمبر 16 کا یہ سانحہ بڑا تھا یا دسمبر 16 سنہ 1971 کا سانحہ، یہ فیصلہ کم از کم مجھ سے آج تک نہیں ہوا، سقوط ڈھاکہ منائیں یا سانحہ اے پی ایس، دھرتی اُجڑنے کا غم بڑا ہے یا ماؤں کی گود اُجڑنے کا دُکھ۔
یہ سانحہ بھی اچانک نہیں ہوا اور وہ سانحہ بھی یک لخت نہیں تھا، 16 دسمبر کی تاریخ دہشت گردوں نے منتخب کیوں کی، شاید اس لیے کہ ہم اُس سانحے پر سانحہ برداشت کر سکتے ہیں یا اس لیے کہ مستقبل کے قتل کو ماضی کی قربان گاہ میں تلاش لیں۔
پھر دسمبر 27، دختر مشرق کا مغرب کے وقت قتل، آخر سانحوں نے اس سر زمین کی راہ ہی کیوں لے لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا سانحہ بھی کچھ کم نہ تھا مگر میں قلم یہاں روک رہی ہوں، اس سانحے پر دو جملے لکھ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا سو اسے کسی اور دن کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
سانحے گُزر جاتے ہیں مگر اپنی آہٹیں چھوڑ جاتے ہیں۔ آہٹ پر کان رکھنے والے نقیبوں کا پتہ چلا لیتے ہیں مگر وقت کی چاپ سُنی ان سُنی کرنے والے نقب سے بچ نہیں سکتے۔
محرومی اور نا انصافی حد سے بڑھ رہی ہے، بھوک اور افلاس تفریق بڑھا رہے ہیں، انصاف دولت کی دہلیز پر ہے، ایک طرف اسلام آباد میں امراء کے ٹاورز جائز تو دوسری طرف کراچی میں پائی پائی جوڑ کر آشیانہ بنانے والوں کے گھر توڑ دیے جاتے ہیں، محلوں کے لیے انصاف اور جھونپڑیوں کے لیے ترازو کچھ اور ہے۔
معاشی نا انصافی معاشرتی تفریق بڑھا رہی ہے جبکہ حکمران اشرافیہ کو احساس تک نہیں۔ بڑھتی آبادی اور بے روزگاری جیسے مسائل ہماری آنکھوں سے اوجھل اور صحت، انصاف، بنیادی ضرورتوں کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
عوام کے اندر غم اور غصے کا لاوا اُبل رہا ہے جس کی ہلکی سی جھلک کل گوادر میں عورتوں کے احتجاج میں نظر آئی۔ عام سے مذہبی راہنما کی ایک آواز پر عورتوں کا جم غفیر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آیا۔
پانی کی بوند اور حقوق مانگنے والی یہ عورتیں جس آواز سے چلا رہی تھیں وہ خوش آئند بھی ہے اور خوفناک بھی۔ احساس محرومی کے شکار اس ہجوم کی آوازوں کو نہ سُنا گیا تو صدائیں چیخوں میں بدل سکتی ہیں۔
خدا کرے کہ اب کوئی اور سانحہ نہ ہو۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر