گزشتہ دو سالوں، یعنی جب سے حکومتِ پاکستان نے یکساں نصابِ تعلیم متعارف کروانے کا سلسلہ شروُع کیا ھے ۔ عوام کے ذہنوں میں متعلقہ وفاقی اور صوباٖئی وزارتوں کیطرف سے ایک طرح سے کنفیوژن ہی رہی ہے ـ یعنی کبھی اِسکو ‘یکساں نظامِ تعلیم’ کہا گیا جو کہ ہمارے ہاں طبقاتی اور تفریقی نظامِ تعلیم کو ختم کرنے جا رہا ہے اور کبھی ‘یکساں نصابِ تعلیم’ جس کا مقصد متفرق نظام ہائے تعلیم کو ختم کیے بغیر تینوں نظام ہائے تعلیم یعنی پبلک، پرائیویٹ سکولوں اور مدارس کو برقرار رکھتے ھوئے ایک جیسا نصاب متعارف کروانا ھے ۔ بڑھتے بڑھتے یہ بات منتج ھوئی کم سے کم چند مشترکہ مضامین کے پڑھانے پرجسے ‘نیشنل کریکولم کونسل’ نے حال ہی میں ‘کور مضامین’ کہنا شروع کر دیا ۔ یہ بات ادارہ برائے تعلیم و ترقی (ٓادراق) کے سربراہ اور معروف ماہرِتعلیم امجد نذیر نے ملتان میں اپنی تحقیقی کتاب "یکساں نصابِ تعلیم: تنقیدی جائزہ اور پالیسی سفارشات” کی رونمائی کرتے ھوئے کہی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں جب مُلک میں تقریبا” تین لاکھ سکولوں کی فوری اور اشد ضرورت ہے، کم و بیش ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ـ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے سینکڑوں سکولوں میں متقاضی کلاس رُومز، باتھ رومز اور چار دیواریاں نہیں ہیں ـ لائبریریوں، لیبارٹریز اور کمپیوٹر لیبز کا سِرے سے فقدان ہے ، اَن گِنت سکولُوں میں اب بھی اَساتزہ غیر حاضر رہتے ہیں یا کسی اور کو اپنی تنخواہ کا معمولی حصہ دے کر اپنی جگہ غیر رسمی اُستاد مقرر کر لیتے ہیں اور خود کوئی اور کاروبار کرتے ہیں ۔ اور ایک تہائی سے کچھ کم پرائمری سکول اب بھی ایک یا ذیادہ سے ذیادہ دو اساتذہ اور بمُشکل دو کمروں پر مشمتمل ہیں ـ یکساں نصابَ تعلیم گھوڑا پیچھے اور ٹانگہ آگے باندھنے کے مترادف ہے ـ
یہی وجہ ہے کہ والدین غربت کے باوجود اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اُنکے خیال میں وہاں معیارِ تعلیم بہتر ہے ـ یہ اوراس جیسے جملہ مسائل حل کیے بغیر یکساں نصابِ تعلیم کا غُلغلہ اُٹھانا محض ایک سیاسی نعرے سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتا ـ اگر حکومتِ پاکستان واقعی نظام تعلیم اور معیارِ تعلیم بہتر کرنے میں رتی برابر دلچسپی رکھتی ھے تو سب سے پہلے اُسے تعلیم کا بجٹ ڈیڑھ دو فیصد سے بڑھا کربین لاقوامی معیار کے مطابق کم از کم چھ فیصد کرنا چاہیے ـ
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امجد نذیر نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے پس منظرمیں، وفاقی وزارتِ تعلیم کا یکساں نصابِ تعلیم بنانا اور اُسکا اطلاق بذاتِ خود ایک مُتنازعہ اقدام ہے ـ کیونکہ متذکرہ بالا ترمیم کے تحت صحت اور تعلیم جیسے تمام شعبہ جات صوبوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں ـ یہی وجہ ھے کہ سندھ نے یکساں نصابِ تعلیم کے کا اطلاق کرنے سے سراسر انکار کر دیا ہے ـ بلوچستان نے اِس پر پہلے دن سے ہی با معنی خاموشی اختیار کیے رکھی ہے ـ جبکہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب، تحریکِ انصاف کی حکومت ہونے کی وجہ سے پیش پیش ہیں ـ یہ اور بات ھے کہ متعلقہ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈز کو کتابوں کی ترتیب و ترمیم، اور اشاعت و تقسیم کے حوالے سے بذاتِ خود طرح طرح کے مسائل اور چیلینجز درپیش ہیں ـ پلان مطابق پہلے فیز میں جماعت اوّل سے پنجم تک جو ماڈل ٹیکسٹ بکس سامنے لائی گئی ہیں اُن میں مواد، معیار، مضامین، موضوعات، کہانیوں کے نفسِ مضامین، مشقوں، اختصارو طوالت، صنفی تصویر کاری، غیر مسلموں کی نمائندگی اور سب سے بڑھ کر طلباء کے حصولِ اکتساب تک ماہرین نے ہر حوالے سے اعتراضات اُٹھائے ہیں اور ماڈل ٹیکسٹ بُکس کو عصر حاضر کے تقاضوں کے بر خلاف غیر معیاری قرار دیا ھے ـ مزید برآں حکومتی عندیہ کیمطابق ڈیڑھ سال کے اندرششم سے ہشتم (مارچ 2022) ، نہم دہم (اگست 2022) اور گیارہویں، بارہوّیں (مارچ 2023) تک کا نصاب کامیابی سے تیار ھوکر، شائع اور تقسیم ھو جانا انتہائی مشکل نظر آتا ہے ـ اور پھر 2023 تک حکومت کے بدلتے ہی کوئی بھی ‘یکساں نصاب تعلیم’ کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہ ھو گا ۔
ہر چند کہ بالآخر پنجاب اور مرکز نے پرائیویٹک اداروں کو مجوزہ نصاب مطابق اپنی اپنی کتابیں شائع کرنے کی اجازت دی ھے مگر اُنہیں این او سی، ریویّواور اجازت کیلئے درکار فیس، اور بیوکریٹک تاخیر جیسی کئی رکاوٹیں درپیش ہیں ـ اور ساتھ ہی ساتھ کم از کم پنجاب میں ‘متحدہ علماء بورڈ’ سے اسلامیات اور دوسرے مضامین میں اسلامی موضوعات کی جانچ پڑتال اور علاحدہ فیس مذید تاخیر کا باعث بنتے ہیں ـ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چند پرائیویٹ اداروں کو یکساں نصابِ تعلیم نہ اختیار کرنے پر لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکیاں دینے کے بعد اب نئی موشگافی سُننے کو مل رہی ھے کہ جو نجی ادارے یکساں نصاب تعلیم اختیار کریں گے اُنکو ‘کور پلس’ کا ٹائیٹل دیا جانے گا جسے محض علامتی عُذر کرکے پسپائی اختییا کرنے کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ـ
مدرسوں کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ھوئے مصنف نے مزید کہا کہ یکساں نصابِ تعلیم مدرسوں کے نظام سے سرے سے مطابقت ہی نہیں رکھتا ـ کیونکہ 25 سے 30 ہزار مدارس میں بمشکل 10 فیصد مدارس ایسے ھونگے جو سرکاری نظام موافق رسمی پرائمری اور ثانوی تعلیم دے رہے ھونگے ـ باقی تمام مدارس فقط قاعدہ، تجوید، ناظرہ، حفظ اور احادیث کی تعلیم و تربیت کرکے اِسے درسِ نظامی کا نام دیتے ہیں ـ اِن میں سے ذیادہ تر نہ ہی نئے نظام تعلیم سے متفق ہیں اور نہ ہی نظریاتی طور پر قائل ہیں کیونکہ انکے خیال میں انکا مقصد عالم دین پیدا کرنا ہہ نہ کہ انجیینئراو سائنسدان بنانا ـ جو باقی ماندہ مدارس ہیں انہوں نے پہلے ہی دس سال کی مہلت اور ساتھ ہی ساتھ اساتزہ اور شاید اُنکی تنخواہوں کا بھی تقاضا کیا ہے ـ گویا مدارس میں بھی عملی طور یکساں نظام کا اطلاق مشکل نظر آتا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ وسائل سے محروم صرف غریب سرکاری سکول ہی ہیں جو یکساں نظام تعلیم کی بے یقینی کی صورت حال سے پریشانی اُٹھاتے رہیں گے ـ
سِمال سکیل پرائمری ریسرچ، جس میں سندھ اور پنجاب سے 32 پبلک، 28 پرا ئیویٹ اور 18 مدرسوں سے حاصل کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق امجد نزیر نے کہا کہ صرف 52 فیصد سرکاری سکولوں، 27 فیصد پرائیویٹ سکولوں جبکہ صرف 20 فیصد مدرسوں کے اساتذہ یکساں نصابِ تعلیم سے واقف تھے ـ یکساں نصاب تعلیم کی تربیت کے حوالے سے68 فیصد سرکاری سکولوں، 19 فیصد پرائیویٹ اور صرف 13 فیصد مدرسوں کے اساتذہ نے اب تک آن لائن یا براہ راست تربیت حاصل کی ہے ـ اسی طرح بوقتِ تحقیق تقریبا” 68 فیصد سرکاری سکولوں کو کتابیں فراہم کی جا چکی تھیں، 21 فیصد پرائویٹ سکولوں نے نئے نصاب کے مطابق کتابیں خرید لی تھیں ـ اور صرف 5 فیصد (رسمی تعلیم دینے والے) مدرسوں نے کسی طرح کتابوں کا حصول ممکن بنا لیا تھا ـ ایسے تمام ادارے جن کو سرکار کیطرف سے کتابیں فراہم نہیں کی گئی تھیں کتابوں کے حصول کے لئے سرگرداں تھے کیونکہ مارکیٹ میں یہ کتابیں میسر ہی نہ تھیں ـ صنفی مساوات کے حوالے تقریبا” 80 فیصد سرکاری سکولوں کے اساتزہ کا خیال ہے کہ نئے نصاب نے صنفی مساوات کو مدِ نظر رکھا، 58 فیصد نجی سکولوں کے اساتذہ بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں جبکہ 15 فیصد مدرسہ کے اساتذہ، جنہوں نے جواب دیا اس سوال کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہیں ـ تقریبا” 85 فیصد سرکاری اساتذہ نے بتایا کہ اُنکے سکولوں میں کوئی غیر مسلم طالبِ علم زیر تعلیم نہیں ہے ـ باقی ماندہ 15 فیصد میں سے لگ بھگ آدھے لوگوں نے کہا، ‘ہاں چند ایک’ اور باقیوں نے کہا معلوم نہیں ۔ جبکہ اقلیتی نمائندگی کے حوالے سے تقریبا” 91 فیصد سرکاری اساتزہ کے خیال میں نئے نصاب میں اقلیتی حقوق کا مساوی احترام کیا گیا ہے ـ 9 فیصد نجی اساتذہ نے اِس بیان سے اتفاق کیا جبکہ مدرسوں میں ایسا ممکن ہی نہیں تھا ـ یکساں نصابِ تعلیم کی طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے تقریبا” 60 فیصد سرکاری اساتزہ کے خیال میں ایسا ممکن ہے، ایک تہائی نجی سکولوں کے اساتزی بھی اس خیال سے اتفاق کرتے نظر آئے جبکہ صرف 9 فیصد مدرسوں کے نماٰئندے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آئے ـ تاہم نئے نصاب کی طبقاتی تفریق ختم کرنے کے امکان بارے 58 فیصد سرکاری سکولوں کے اساتزہ، 25 فیصد نجی سکولوں کے اساتذہ اور 17 فیصد مدرسہ نماٰئندوں کے خیال میں ایسا ممکن تھا ـ مختصرا” ادراق نے یہ تتیجہ اخذ کیا کہ سرکاری سکولوں کے اساتزہ کو کم و بیش یکساں نصابِ تعلیم کے حوالے سے نام کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں ہے ـ اور یہی صورتِ حال کم فیس والے نجی سکولوں کی بھی ہے ـ اسکے بالعکس مدرسوں کے نمائندے ذیاہ تر اپنے ہی نطام ، اپنے اور اپنے فارغ التحصیل طلباء کے مسقبل اور روزگار پر زور دیتے ہیں اور یکسانیت پر یقین ہی نہں رکھتے ـ
پاکستان تنظیم برائے اقلیتی اساتذہ کے صدر، انجم جیمز پال نے کہا کہ جہاں یہ امر خوش آئیند اور قابلِ تعریف ہے کہ حکومتِ پاکستان نے پہلی دفعہ اقلیتوں کو "اخلاقیات” کی بجائے اُنکے اپنے عقائد کے مضامین پڑھنے کا حق دیا ھے وہیں مسلم کمیونٹی کیلئے بالخصوص اور غیر مسلم کمیونٹی کے لئے بالعموم کافی سارے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں ـ اِس میں اھم ترین بات سماجی علوم کے لازمی مضامین میں بہت سا اسلامی مواد شامل کرنا ھے ۔ دوسرے لفظوں میں سکھ، ہندو، مسیحی، بہائی اور کیلاش لوگوں کو براہ راست نہ سہی بالراست یہ تمام مضامین پڑھنے ہی ہیں اور اگر وہ امتحان دے کر سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں تو انکو تمام اسلامی مضامین موثر طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے ہیں تا کہ وہ اچھے نمبر اور سرٹیفیکیٹ لے سکیں ـ ایک اورمثال دیتے ھوئے انہوں نے کہا کہ مسلم طلبا کو پہے ہی حفظ کے 20 نمبر اضافی دیے جا رہے تھے اور اب لازمی قران مجید کی تعلیم کیسا تھ انکے پاس پچاس نمبروں کا اور بھی مارجن ھو گا جس سے غیر مسلمان بچے نمبروں اور میرٹ میں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے ـ اور یہ نہ صرف اُنکے لئے مشکل کا باعث ھو گا بلکہ یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی بھی خلاف ورزی ہے جو کہ غیر مسلموں کو براہ راست او بالراست انکے اپنے عقیدے کے علاوہ کسی بھی عقیدے کی تعلیم دینے سے منع کرتا ہے ـ انجم جیمز پال نے مزید کہا کہ پاکستان کا نظام دراصلی سسٹمیٹک اور سٹرکچرل لحاظ سے ہی امتیازی اور تفریقی ہے ۔ تعلیم اسکی محض ایک مثال ہے ـ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ لازمی سماجی مضامین سے اسلامی عناصر نکال کر انکو صرف اِسلامیات تک محدود کر دینا چاہیے تاکہ غیر مسلم طلبا کو مشکل نہ ہو اور مسلم طلباء بھی اسکی جگہ متبادل مضامین کا موثر مُطالعہ کر سکیں ـ
ڈاکٹر امجد بخاری نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی نصاب اچھے ہا بُرے پہلوؤں سے جانچا جا سکتا ہے ـ اصل بات ہہ کہ ان مضامین کو کیسے پڑھایا جاتا ھے ـ اگر اساتزہ اچھے طریقے سے پڑھائیں تو کوئی بھی نصاب موثر ثابربت ھو سکتا ہے ـ قمر رضا شہزاد نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور اپنی متعلقہ شاعری بھی سنائی ـ سوجھلا سے ظہور جوئیہ نے سیمینار کو ماڈریٹ کیا او سوال جواب کے بعد سیمنار کا اختتام ھو گیا ـ
اے وی پڑھو:
تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر
چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر
گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر
گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر
سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر