دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے سیاسی نعرے!||ملک سراج احمد

عوام کی واضح اکثریت گھروں میں رہی پھر بھی ریفرنڈم کا فیصلہ ضیا الحق کے حق میں نکلا اس پر حبیب جالب نے کہا کہ شہر میں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا۔ اور ضیا الحق کے حامی نعرہ مستانہ لگاتے کہ مرد مومن مرد حق، ضیا الحق ضیا الحق اور پیپلز پارٹی کے ورکر شہرہ آفاق نعرہ لگاتے کہ بھٹو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں نعروں کی اپنی اہمیت رہی ہے۔ عوام اپنے جذبات، نفرت اور سیاسی قائدین سے محبت کا اظہار نعروں میں کرتے ہیں۔ نعرہ جتنا فلک شگاف ہو گا اس میں جتنی شدت ہوگی محبت اور نفرت بھی اتنی ہی ہوگی۔ ایسے نعرے جن سے عوام کے جذبات کو ابھارا جائے ایک عوامی رائے عامہ بنائی جا سکے ہمیشہ پسند کیے جاتے ہیں۔ کچھ نعرے مختصر ہونے کے باوجود اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ ان میں پورا ایک سیاسی فلسفہ بیان ہوجاتا ہے پارٹی کا منشور چھپا ہوتا ہے مطلب نعرہ وہ کوزہ ہے جس میں سیاست کا دریا بند ہوتا ہے۔

تحریک پاکستان کا مرحلہ جب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک ہی نعرہ زبان زد عام تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ اللہ۔ اس کے علاوہ ایک نعرہ لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان گلی محلوں میں گونجتا رہتا۔ ان ہی دنوں میں دہلی کی گلیوں میں ہندو نعرہ لگاتے کہ جس طرح چڑیوں کو نخلستان مل سکتا نہیں، اسی طرح مسلم کو پاکستان مل سکتا نہیں اور جواب میں مسلمان نعرہ لگاتے کہ موت ٹل سکتی ہے، پاکستان ٹل سکتا نہیں۔

پاکستان بن گیا اس کے بعد ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کے لیے نئے نعرے تخلیق ہوئے۔ ان نعروں کی بدولت سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں سیاسی رہنماؤں کو تاج و تخت ملے مگر نعرہ لگانے والوں کے حالات نہیں بدلے۔ کل جن کے اجداد نعرے لگا رہے تھے آج ان کی اولادیں فلک شگاف نعرے لگا رہی ہیں اور شاید ان کی آنے والی نسلیں بھی اسی طرح نعرے لگائیں گی۔ لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے۔

جنرل ایوب خان اور محترم فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی الیکشن کا میدان سجا تو محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین جبکہ جنرل ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ ایسے میں محترمہ فاطمہ جناح کے سپورٹرز نعرہ لگاتے کہ ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کھلا مرجھانے کو اور اس کے جواب میں ایوب خان کے سپورٹر نعرہ لگاتے کہ ملت کا محبوب، ایوب ایوب۔ صدر ہو کون۔ ایوب ایوب۔ صدارتی الیکشن ہوئے اور جمہوریت کی لالٹین بجھ گئی اور پھول تروتازہ رہا۔

1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ اسی طرح اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام بھی مقبول ہوئے۔ پارٹی ورکرز میں نعرہ دنیا تیرے نال، بھٹو جئے ہزاروں سال کافی مقبول تھا۔ ان ہی انتخابات میں جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو پر پیپلز پارٹی کے ورکرز نعرہ لگاتے کہ جھک گئی گردن کٹ گیا بازو، ہائے ترازو ہائے ترازو اور اس کے جواب میں جماعت کے ورکرز نعرہ لگاتے کہ لاؤ ترازو تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ ان الیکشن میں جمعیت علمائے پاکستان کا انتخابی نشان چابی تھا اور اس کے ورکر نعرہ لگاتے کہ چابی جنت کا تالا کھولے گی۔ اور حق و صداقت کی نشانی شاہ احمد نورانی۔

1977 کے انتخابات میں پی این اے کا نعرہ گنجے کے سر پر ہل چلے گا، گنجا سرکے بل چلے گا اور انتخابی نشان ہل پر نعرہ لگتا کہ ہل نے مچا دی ہلچل ہلچل۔ اس کے بعد ضیا الحق کا مارشل لا لگ گیا تو سیاسی ورکر نعرہ لگاتے کہ نہ ہل آیا نا آئی تلوار، آ گئی مونچھاں والی سرکار۔ یہی نہیں بلکہ کچھ من چلے لاہور کی سڑکوں پر بھی سرمے والی سرکار لکھتے کیونکہ ضیا الحق آنکھوں میں سرمہ لگاتا تھا۔ 19 دسمبر 1984 کو ضیا الحق کا صدارتی ریفرنڈم ہوا سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی نے اس کا بائیکاٹ کیا۔

عوام کی واضح اکثریت گھروں میں رہی پھر بھی ریفرنڈم کا فیصلہ ضیا الحق کے حق میں نکلا اس پر حبیب جالب نے کہا کہ شہر میں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا۔ اور ضیا الحق کے حامی نعرہ مستانہ لگاتے کہ مرد مومن مرد حق، ضیا الحق ضیا الحق اور پیپلز پارٹی کے ورکر شہرہ آفاق نعرہ لگاتے کہ بھٹو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔

1986 میں محترمہ نے نظیر بھٹو جب لاہور آئیں تو بے نظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا کے نعرے لگے۔ جیالے فلک شگاف نعرے لگاتے کہ نہ جھکنے والی بے نظیر، نہ بکنے والی بے نظیر اور ضیا جاوے ہی جاوے اور ضیا الحق کے خلاف یہ نعرہ بھی لگتا کہ امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے۔ 1988 کے عام انتخابات میں مسلم لیگی ورکرز نے نعرہ لگایا کہ جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔

6اگست 1990 کو پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی پر پارٹی ورکرز کا نعرہ یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور ایک مدت تک گونجتا رہا۔ 1990 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کا انتخابی نشان سائیکل تھا تو یہ نعرہ لگتا کہ اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں اور پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا کہ توڑ ظلم کا غرور، یا اللہ یا رسول۔ نو سیاسی جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی کا مقبول نعرہ نو ستارے سائیکل نشان، جیوے جیوے پاکستان تھا۔

1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا مقبول نعرہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر تھا۔ جبکہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کا نعرہ تھا سب سے پہلے پاکستان اور ایم ایم اے کا نعرہ ہاتھوں میں کتاب ہو، آغاز انقلاب ہو نے کے پی کے میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اور تحریک انصاف کا نعرہ تھا عوام کی ہے ایک ہی رائے، مشرف و عمران ہی آئے۔

2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ سے لگنے والے نعرہ پاکستان نہ کھپے کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر خاموش کرا دیا۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا نعرہ علم، روشنی، سب کو کام۔ روٹی کپڑا اور مکان۔ مانگ رہا ہے ہر انسان اور مسلم لیگ نون کے انتخابی نعرے دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا اور قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ 9 ستمبر 2008 کو آصف علی زرداری صدر بنے تو جیالوں نے نعرہ لگایا ایک زرداری سب پر بھاری جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

2013 میں تحریک انصاف کا نعرہ تبدیلی کا نشان عمران خان اور ملک بچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان، علم صحت سب کو کام جبکہ مسلم لیگ نون کا نعرہ بدلا ہے پنجاب اب بدلیں گے پاکستان تھا۔ جبکہ 2018 میں ان جماعتوں کے انتخابی نعرے کم وبیش یہی رہے۔

مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author