رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ جب بھوک سے بلبلاتاہے اور دودھ خریدنے کے جیب میں پیسے نہ ہوں توانسان کے دماغ میں ایٹم بم پھٹ جاتاہے, پل بھرمیں ساری دنیااجنبی ہوکررہ جاتی ہے, وہ گھر, گھرکی دیواریں, گلی محلہ, ہمساۓ, محلے کے لوگ جن کوآدمی اپناسمجھنے کا یقین ساتھ لیکرجی رہاہوتاہے, پل بھرمیں سب اجنبی ہوجاتے ہیں, حتٰی کہ بیوی اوروالدین کوبھی اجنبی سمجھنے لگتاہے۔۔۔یہ سب میرے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔پھروہ جگرکاٹکڑا, وہ شیرخواربچہ بھی اجنبی لگنے لگتاہے, اچانک سوچوں کاطوفان امڈآتاہے میں اس کیلئے, والدین کیلئے, اپنی بیوی کیلئے, اپنے لوگوں کیلئے کچھ نہیں کرسکتا, کچھ بھی نہیں کرسکتا۔۔۔حتیٰ کہ اپنے جگرکے ٹکڑے کیلئے دودھ کی ایک بوتل تک نہیں خریدسکتا۔۔۔یہ کون ہے, بارباراس کی آنکھ میری طرف کیوں اٹھتی ہیں, میں کون ہوں؟ کیامیں کچھ بھی نہیں, کیامیں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں, کیامیری زندگی اس معاشرے اس ملک اس شہرکے لوگوں کیلئے فالتوہے, کیامیری زندگی کاکسی کوکوئی فائدہ نہیں۔۔۔ہاں میری زندگی کاکوئی مصرف نہیں, اس زندگی کی کوئی قیمت نہیں, یہ زندگی شیرخواربچے کومیرے اپنے بیٹے کودودھ کی ایک بوتل نہیں دلاسکتی, لعنت ہوایسی زندگی پر؟
شایدنوجوان صحافی فہیم مغل نے یہی سوچ کرخودکشی کی ہوگی؟؟
نہیں نہیں۔۔۔فہیم مغل کوئی مایوس انسان نہیں تھا, وہ توایک فائیٹرتھا, آخرحدتک نامساعدحالات سے لڑتارہا, بس بچے کوبھوک سے بلکتادیکھ کرٹوٹ ساگیا۔۔۔ایکسپریس نیوزسے نکالاگیاتواس نے کراۓ پررکشہ چلاناشروع کردیا, صبح نکلتارات دیرگئے گھرواپس لوٹتاتھا, دن بھرلوگوں کے طعنے سنتا ٹریفک اہلکاروں کی گالیاں برداشت کرتا تاکہ بیوی اورچاربچوں کاپیٹ بھرسکے, مگرفہیم مغل بھی اسی سسٹم کاغلام تھاجس کی غلامی کروڑوں انسان کررہے ہیں۔۔۔ہوا یہ کہ پٹرول,آٹا, چینی, دالیں, سبزیاں, دودھ سب مہنگاہوتاگیااور آمدنی کم ہوتی چلی گئی۔۔۔پھر کسی مہربان نے مشورہ دیاکہ بینک سے قرضہ لے لوجب حالات اچھے ہوں واپس کردینا, فہیم مغل نے سوچا, ہاں, بینک سے قرضہ لے لیتاہوں, مکان کاکرایہ کئی مہینوں سے چڑھاہواہے وہ اداہوجاۓ گا کچھ دوسرے خرچے بھی پورے ہوجائیں گے۔ بھلافہیم کو کیامعلوم تھاکہ بینکوں کے نام پربیٹھے یہ ساہوکارسب سے بڑے جلادہیں۔ اس نے نہ چاہتے ہوۓ بھی حبیب بینک لمیٹڈ کاکریڈٹ کارڈبنوالیااور70ہزارروپے نکلواکرانتہائی ضروری اخراجات کامنہ بندکردیا, لیکن فہیم کوکیامعلوم تھاکہ یہی کریڈٹ کارڈکل اس کیلئے خودکشی کا پھندہ بن جاۓ گا۔
ادھرمہنگائی بڑھنے سے آمدنی کم ہوتے ہوتے صفرکے قریب پہنچ گئی, کراۓ کا رکشہ چلاکر جو کماتا اس سے پٹرول بھی بمشکل پوراہوتا تھا, اگرکچھ بچتا تورکشہ مالک سنبھال لیتاتھا۔ اپنا,بیوی اورچاربچوں کاپیٹ کیسے بھراجاۓ, جبکہ دوسری طرف حبیب بینک کے ریکوری آفیسر (غنڈے) الگ اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے, بینک کا70ہزارروپے کاقرضہ کیسے واپس لوٹایاجاۓ, یہ فہیم کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین, اوورسیزپاکستانیوں کووٹ کاحق دینے, افغانستان میں حکومت کی تبدیلی اور میاں نوازشریف کیخلاف نیب کی انتقامی کارروائیوں سے بڑامسئلہ تھا, زندگی کے آخرچندمہینوں میں فہیم رات کوگھرواپس لوٹتے وقت کھاناراستے میں پڑنے والے ایک نجی لنگرخانے (جعفریہ ڈیزاسٹرسیل) سے لیکرآتاتھا۔ مگرچھوٹے بچے کوتودودھ چاہیے, اوپرسے بینک والوں کی دھمکیاں۔۔۔کہاں وہ اچھے دنوں کےیارجو ہروقت دوستی کادم بھرتے تھے, وہ لوگ اب کیوں نہیں ملتے کبھی جومنہ پرتعریفوں کے پل باندھتے تھے, واہ کیابات ہے فہیم جیساصحافی کوئی ہونہیں سکتا۔ وہ تبدیلی سرکار, وہ جوکہتاتھا ہماری حکومت آنے گی, دنیابھرسے لوگ روزگارڈھونڈنے کیلئے پاکستان میں آئیں گے, میں ریاست مدینہ بناکردکھاؤں گا۔ ریاست مدینہ میں توکتے کے بھوکامرنے پرخلیفہ کوذمہ دارٹھہرایاگیاتھا, مگریہاں پرتوانسان بھوک سے مرگیاہے صاحب!
یہ بات بھی تو فہیم کواندرہی اندرکھارہی ہوگی کہ اچانک یہ کیا ہوگیا, کسی کومیری ضرورت ہی نہیں رہی, کوئی بھی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا, کوئی بھی مجھے کام نہیں دیتا, کوئی بھی مجھ سے میری ضرورت کانہیں پوچھتاحالانکہ اخبارات اورٹی وی چینلوں کے مالکان کی دولت میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہورہی ہے, وزیراعظم کے بقول معیشت بھرپوترقی کررہی ہے۔ صحافیوں کی کئی تنظیمیں وجودمیں آچکی ہیں, ان کے لیڈروں کی شکلیں اورٹھاٹھ باٹھ دیکھ کرلگتاہی نہیں کہ صحافیوں کوکوئی مسئلہ درپیش ہوگا, مگران میں سے کوئی بھی میرے مسئلے پرتوجہ نہیں دیتا, چھوٹا سا تو میرامسئلہ ہے, بینک کاصرف70ہزارروپے قرضہ واپس کرناہے, صرف70ہزار۔۔۔یہاں پرتولوگ بینکوں کے کروڑوں اربوں کھاگئے اورڈکارتک نہیں لیا, کوئی میرا70ہزارہی واپس کردے, چلوقسطیں ہی کروادو, چندمہینوں کی چھوٹ ہی دلوادو۔۔۔مگرصحافتی تنظیمیں مصروف تھیں, کچھ آزادصحافت کے نام پر کروڑپتی اینکروں کے پروگرام بحال کروانے میں ا
تو کچھ حکومت کی وفاداری کادم بھرنے اورپاک فوج زندہ بادکے نعرے لگانے میں!!
اتنے بڑے فرائض کی ادائیگی کے مقابلے میں فہیم کاچھوٹاسامسئلہ ہمارے مہان لیڈروں کاقیمتی وقت بربادکردیتا, چھوٹاسامسئلہ ہی توتھابڑے لوگوں کی توجہ کیسے حاصل کرپاتا؟
کہتے ہیں انسان خودکشی اس وقت کرتاہے جب وہ مایوسی کی انتہاتک پہنچ چکاہوتاہے, لیکن یہ بات غلط ہے۔ خودکشی بھی دراصل ایک احتجاج ہے, انڈیامیں پھندہ لگی لاشیں بھی ابانیوں, اڈانیوں اورمودیوں (موذیوں) کے گٹھ جوڑکیخلاف احتجاج کررہی ہوتی ہیں, یقنیناً فہیم مغل نے بھی یہی سوچاہوگا کہ جیتے جی توکوئی اس کی طرف توجہ نہیں کررہا نہ حکومت نہ میڈیامالکان, نہ یونین لیڈران اورنہ ہی بڑے بڑے اینکر۔۔۔کیوں نہ مرکر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواؤں!!
کیونکہ احتجاج ہی بااختیاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کاایک واحدذریعہ ہے, مگرایسا جان لیوا احتجاج۔۔۔۔۔ایساجان لیوا احتجاج کوئی شخص کس نہج پر پہنچنے کے بعدکرتاہے۔۔۔سوچناہوگا!!!!
شایدنوجوان صحافی فہیم مغل نے یہی سوچ کرخودکشی کی ہوگی؟؟
نہیں نہیں۔۔۔فہیم مغل کوئی مایوس انسان نہیں تھا, وہ توایک فائیٹرتھا, آخرحدتک نامساعدحالات سے لڑتارہا, بس بچے کوبھوک سے بلکتادیکھ کرٹوٹ ساگیا۔۔۔ایکسپریس نیوزسے نکالاگیاتواس نے کراۓ پررکشہ چلاناشروع کردیا, صبح نکلتارات دیرگئے گھرواپس لوٹتاتھا, دن بھرلوگوں کے طعنے سنتا ٹریفک اہلکاروں کی گالیاں برداشت کرتا تاکہ بیوی اورچاربچوں کاپیٹ بھرسکے, مگرفہیم مغل بھی اسی سسٹم کاغلام تھاجس کی غلامی کروڑوں انسان کررہے ہیں۔۔۔ہوا یہ کہ پٹرول,آٹا, چینی, دالیں, سبزیاں, دودھ سب مہنگاہوتاگیااور آمدنی کم ہوتی چلی گئی۔۔۔پھر کسی مہربان نے مشورہ دیاکہ بینک سے قرضہ لے لوجب حالات اچھے ہوں واپس کردینا, فہیم مغل نے سوچا, ہاں, بینک سے قرضہ لے لیتاہوں, مکان کاکرایہ کئی مہینوں سے چڑھاہواہے وہ اداہوجاۓ گا کچھ دوسرے خرچے بھی پورے ہوجائیں گے۔ بھلافہیم کو کیامعلوم تھاکہ بینکوں کے نام پربیٹھے یہ ساہوکارسب سے بڑے جلادہیں۔ اس نے نہ چاہتے ہوۓ بھی حبیب بینک لمیٹڈ کاکریڈٹ کارڈبنوالیااور70ہزارروپے نکلواکرانتہائی ضروری اخراجات کامنہ بندکردیا, لیکن فہیم کوکیامعلوم تھاکہ یہی کریڈٹ کارڈکل اس کیلئے خودکشی کا پھندہ بن جاۓ گا۔
ادھرمہنگائی بڑھنے سے آمدنی کم ہوتے ہوتے صفرکے قریب پہنچ گئی, کراۓ کا رکشہ چلاکر جو کماتا اس سے پٹرول بھی بمشکل پوراہوتا تھا, اگرکچھ بچتا تورکشہ مالک سنبھال لیتاتھا۔ اپنا,بیوی اورچاربچوں کاپیٹ کیسے بھراجاۓ, جبکہ دوسری طرف حبیب بینک کے ریکوری آفیسر (غنڈے) الگ اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے, بینک کا70ہزارروپے کاقرضہ کیسے واپس لوٹایاجاۓ, یہ فہیم کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین, اوورسیزپاکستانیوں کووٹ کاحق دینے, افغانستان میں حکومت کی تبدیلی اور میاں نوازشریف کیخلاف نیب کی انتقامی کارروائیوں سے بڑامسئلہ تھا, زندگی کے آخرچندمہینوں میں فہیم رات کوگھرواپس لوٹتے وقت کھاناراستے میں پڑنے والے ایک نجی لنگرخانے (جعفریہ ڈیزاسٹرسیل) سے لیکرآتاتھا۔ مگرچھوٹے بچے کوتودودھ چاہیے, اوپرسے بینک والوں کی دھمکیاں۔۔۔کہاں وہ اچھے دنوں کےیارجو ہروقت دوستی کادم بھرتے تھے, وہ لوگ اب کیوں نہیں ملتے کبھی جومنہ پرتعریفوں کے پل باندھتے تھے, واہ کیابات ہے فہیم جیساصحافی کوئی ہونہیں سکتا۔ وہ تبدیلی سرکار, وہ جوکہتاتھا ہماری حکومت آنے گی, دنیابھرسے لوگ روزگارڈھونڈنے کیلئے پاکستان میں آئیں گے, میں ریاست مدینہ بناکردکھاؤں گا۔ ریاست مدینہ میں توکتے کے بھوکامرنے پرخلیفہ کوذمہ دارٹھہرایاگیاتھا, مگریہاں پرتوانسان بھوک سے مرگیاہے صاحب!
یہ بات بھی تو فہیم کواندرہی اندرکھارہی ہوگی کہ اچانک یہ کیا ہوگیا, کسی کومیری ضرورت ہی نہیں رہی, کوئی بھی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا, کوئی بھی مجھے کام نہیں دیتا, کوئی بھی مجھ سے میری ضرورت کانہیں پوچھتاحالانکہ اخبارات اورٹی وی چینلوں کے مالکان کی دولت میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہورہی ہے, وزیراعظم کے بقول معیشت بھرپوترقی کررہی ہے۔ صحافیوں کی کئی تنظیمیں وجودمیں آچکی ہیں, ان کے لیڈروں کی شکلیں اورٹھاٹھ باٹھ دیکھ کرلگتاہی نہیں کہ صحافیوں کوکوئی مسئلہ درپیش ہوگا, مگران میں سے کوئی بھی میرے مسئلے پرتوجہ نہیں دیتا, چھوٹا سا تو میرامسئلہ ہے, بینک کاصرف70ہزارروپے قرضہ واپس کرناہے, صرف70ہزار۔۔۔یہاں پرتولوگ بینکوں کے کروڑوں اربوں کھاگئے اورڈکارتک نہیں لیا, کوئی میرا70ہزارہی واپس کردے, چلوقسطیں ہی کروادو, چندمہینوں کی چھوٹ ہی دلوادو۔۔۔مگرصحافتی تنظیمیں مصروف تھیں, کچھ آزادصحافت کے نام پر کروڑپتی اینکروں کے پروگرام بحال کروانے میں ا
تو کچھ حکومت کی وفاداری کادم بھرنے اورپاک فوج زندہ بادکے نعرے لگانے میں!!
اتنے بڑے فرائض کی ادائیگی کے مقابلے میں فہیم کاچھوٹاسامسئلہ ہمارے مہان لیڈروں کاقیمتی وقت بربادکردیتا, چھوٹاسامسئلہ ہی توتھابڑے لوگوں کی توجہ کیسے حاصل کرپاتا؟
کہتے ہیں انسان خودکشی اس وقت کرتاہے جب وہ مایوسی کی انتہاتک پہنچ چکاہوتاہے, لیکن یہ بات غلط ہے۔ خودکشی بھی دراصل ایک احتجاج ہے, انڈیامیں پھندہ لگی لاشیں بھی ابانیوں, اڈانیوں اورمودیوں (موذیوں) کے گٹھ جوڑکیخلاف احتجاج کررہی ہوتی ہیں, یقنیناً فہیم مغل نے بھی یہی سوچاہوگا کہ جیتے جی توکوئی اس کی طرف توجہ نہیں کررہا نہ حکومت نہ میڈیامالکان, نہ یونین لیڈران اورنہ ہی بڑے بڑے اینکر۔۔۔کیوں نہ مرکر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواؤں!!
کیونکہ احتجاج ہی بااختیاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کاایک واحدذریعہ ہے, مگرایسا جان لیوا احتجاج۔۔۔۔۔ایساجان لیوا احتجاج کوئی شخص کس نہج پر پہنچنے کے بعدکرتاہے۔۔۔سوچناہوگا!!!!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر