مرتضی زاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"رگ وید” میں گھوڑے(اسپ) کی شان میں بہت سے اشعار ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آرین کے پاس گھوڑا ہی صرف ایسی طاقت تھی جو سندھ کے سست بیل اور سست ہاتھیوں پر بھاری تھی۔اس لئے گھوڑے کی شان میں قصیدے لکھے گئے اور گھوڑا کی وفا کے قصے بنے بلکہ گھوڑا مقدس جانور ٹھہرا۔گھوڑے کی قبریں بنائی گئیں۔
"رگ وید” سے لے کر آج تک جیسے حلال جانور کو ذبح کیا جاتا ہے، گھوڑے کو بھی ذبح کر کے زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔یعنی اس کا گوشت کتے، کوے اور گدھوں کے آگے نہیں ڈال دیا جاتا۔ "رگ وید” سے لے کر آج بھی گھوڑا "ذوالجناح”بن کر ہمارے سامنے ہے۔اور یہی تہذیبی، ثقافتی رنگ ہے۔ کل اگر گھوڑا جنگ میں فتوحات کی علامت کی وجہ سے مقدس تھا تو آج حسین (عہ) کے ساتھ وفا کی علامت کے طور پر مقدس ٹھہرا۔ یہ سلسلہ "رگ وید” ہی سے تہذیبی، ثقافتی رنگ کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس لئے اشولال اس تہذیبی، ثقافتی رنگ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی شاعری میں ہرن، سارنگ،بلھن،ہنس،کونج بن کر بات کرتے ہیں۔ وہ پورا شعور رکھتے ہیں کہ گھوڑا کبھی سندھ وادی کی سواری نہیں رہی ہے اور نہ ہی گھوڑا کبھی سندھ وادی کا جانور رہا ہے اور ویسے بھی دنیا گھوڑے کو طاقت کے استعارے میں دیکھتی ہے۔
اس لئےاشولال اپنے پکھی پہاروں کی بات اسی تہذیبی، ثقافتی رنگ میں کرتے ہیں جو گھوڑے سے چلی آرہی ہے اور یہی وہ تہذیبی کروٹ ہے یا اسی کلچر کی بازیافت ہے جس کا آدمی ہزاروں سالوں سے اپنے آپ سے ناواقف چلا آرہا ہے لیکن آج کا شاعر اسی وادی سندھ کے پکھی پہاروں کی بات کرتا ہے اور اس نے ان پکھی پہاروں کی بات کی ہے جو معدوم ہوگئے ہیں یا معدوم ہونے کے خطرے ہیں ہیں۔ دراصل یہ خطرے کسی تہذیب کو معدوم ہونے کے خطرے ہیں۔ جیساکہ وہ اپنی نظم میں”کتھاشنیھ” میں یہ بات بتاتا ہے:
چھڑا شنیھ نئیں مردا بیلے دا
بیلے نالں مر ہیں دے راج پچھوں
وسوں راہندی نئیں وسوں نال اپنے
جھل نال اپنے جھل راہندی نئیں
شاعر خود پکھی پہاروں بن کر بولتا ہے مثلا ان کی نظم "سندھ ساگر نال ہمیشاں” میں ایک "کتھا بلھن” ہے۔
اس بلھن کو "آندھی ڈالفن” بھی کہا جاتا ہے اور ماہرین نسلیات کہتے ہیں کہ بلھن کبھی عورت تھی اور اپنا ننگ و ناموس بچانے کی غرض سے دریا میں کود گئ اور دریا کی ہی ہو کر رہ گئ۔ اشولال "کتھا بلھن” میں اسے یوں بیان کرتے ہیں:
ساوی کنڑک پچھوں کوئ تریمت ہئ
کوئ تریمت ہئ نیلے کنول پچھوں
کہیں جل پریاں دی کتھا وچوں
بہہ کرنڑی ہے کتھا بلھن دی
آگے چل کر شاعر اسی کتھا میں خود بلھن بن کر سندھو سے کہتا ہے :
تیکوں شوہ من کے سوہنڑاں سندھ سائیں
سوہنڑاں سندھ سائیں تیکوں ور من کے
نمی دریس سکھی تیڈے پانڑیاں توں
تیڈے پانڑیاں توں مٹھے گیت سکھیے
اکھیں ڈے کے وی اساں اندھیاں کوں
افلاک تئیں سب ڈسدا ہے
ماء ڈسدی ہے تیڈی شکل وچوں
تیڈی شکل وچوں رب ڈسدا ہے
اسی کتھا میں شاعر بلھن سے جنسی زیادتی کی بات کرتا ہوا نظر آتا ہے :
کتھوں راہ وسریا سوہنڑاں سندھ سائیں
سوہنڑاں سندھ سائیں کتھوں سیڑھ بھلی
کیا ڈہدیاں ہیں اتھاں گھن آئ ہے
ساکوں نال اپنڑے سک آدم دی
جتھاں منہ کالا ایں دنیا وچ
ساڈے نال ایں دنیا کرنڑاں ہا
کوئ سمجھے تاں اساں بھینڑیں ہیں
اوں ویر دیاں جیں بھن کھادا ہا
جیں تل کھادا اوں پتر دیاں
کوئ سمجھے تاں اساں ماواں ہیں
اسی کتھا میں شاعر کہتا ہے کہ اگر ان ختم ہوتی ہوئ چیزوں کی بات کی جائے تو پھر سے زندہ ہو سکتی ہیں:
کوئ متر ولا سوہنڑاں سندھ سائیں
کتھا آن کرے وت جی پوسوں
اسی طرح اشو لال اپنی نظم میں "کتھا ہنس "بھی بیان کرتا ہے یعنی ہنس بن کر شاعر بات کرتا ہے اور یہ وہ پنچھی ہے جس کی نسل سندھ دریا سے معدوم ہو گئ ہے :
کوئ سو ڈو سو دا ساتھ ہوسی
اساں جگ پردیسی ہنساں دا
ایویں کل دی گالھ ہے بیلے وچ
ودے کھیڈدے ہاسے چندر تلے
گچیاں مونڈھے سٹ کے پانڑیاں تے
ادھے جاگدے ہوئے ادھے ستے ہوئے
کھنب کتھے ہوئے کھنب ہوندیں وی
اکھیں ہوندیں وی اکھیں متے ہوئے
تیڈی پریت پچھوں سوہنڑاں سندھ سائیں
اساں ھنس نہ ہوئے جیوے کتے ہوئے
وڈے ویلے دی انوں بانگ ملی
انوں سب دے سب اساں مارے گئے
اسی نظم میں شاعر "کتھا کونج "بیان کرتا ہے یعنی خود کونج بن جاتا ہے ۔ کونج غم کے استعارے میں استعمال ہوتی ہے۔ اشولال کونج بن کر کہتا ہے:
گچیاں ہک ڈوجھے دیاں گچیاں تے
کتھاں سٹ کے سوہنڑاں سندھ سائیں
ڈو نال ولا ہک ہوونڑ دی
تیڈی جوگ ولاونڑ آیاں ہیں
کتھوں آیاں ہیں نیلے کھنب دھوونڑ
تیڈے چٹکے دھاونڑ آیاں ہن
نانویں بالاں دے سوہنڑاں سندھ سائیں
تیڈے پھیرے پاونڑ آیاں ہن
یہی وہ تہذیبی جانبداری ہے جو شاعر نے کونج کی زبان میں کی ۔
اسی نظم میں اشو لال "کتھا ہرن”بھی بیان کرتے ہیں یعنی شاعر ہرن بن کر بات کرتا ہے – مجھے اشولال کی یہ "کتھا ہرن” پڑھتے وقت اس کی کہانی "ابنارمل” یاد آجاتی ہے جو اسی "کتھا ہرن” سے مکمل جڑی ہوئ ہے ۔ کتھا ہرن” کا آخری بند کیا کمال کا بند ہے:
اے وی بھل گئے ہیں کیں ماریا ہا
کیں کٹھیا ہا اے وی بھل گئے ہیں
جیں بھئو اپنے دی بھال وچوں
بندے نال بندوخ بنائی ہے
وسوں آن اجاڑی جیں اپنی
جیں لیہہ اپنی وسمائی ہے
جیں ویچی ہے مل کوڈیاں دے
ہتھوں جنت آپ ونجائی ہے
اوں آدم کوں دلوں خون اپنا
اساں ماف کیتا، اللہ معاف کرس
پکھی پرندوں اور جانوروں کی کتھا سے گو پکھی پرندے اور جانور نئے ہوئے ہیں لیکن اصل میں یہ یہاں کے آدمی کا مرثیہ ہے جو ہزاروں سالوں سے دکھ سہتا آرہا ہے اور آج کے شاعر نے اسے بازیافت کیا ہے اور اس بازیافت کے ساتھ ساتھ ان پر جوزیادتیاں ہوئیں وہ ان کو معاف کردینے کا عندیہ بھی دے رہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ