دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎بلیڈنگ کی فکر: کیسی محبت؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

”وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میری زندگی میں اس کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔ میں تو محبت کے باوجود اس کے قریب نہیں گئی کبھی۔ لیکن یہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی“ وہ سر جھکا کر بولی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ڈاکٹر میرا معائنہ کر لیجیے“ ، وہ کرسی پر بیٹھتے ہی بولی،
”کر لیا“ ، ہم نے اسے سر سے پاؤں تک گہری نظر سے دیکھا۔

”نہیں ایسے نہیں، میرا مطلب ہے وہ والا“ وہ جھینپ کر بولی۔
”یہ وہ والا معائنہ کون سا ہوتا ہے؟“ ہم نے بھی لطف اٹھاتے ہوئے پوچھا
”جی۔ وہ۔ وہ“ ، وہ ہکلانے لگی۔
”آپ پہلے اپنی تکلیف تو بتائیے؟“ ہم نے پوچھا۔

”وہ اصل میں میری شادی ہونے والی ہے تو میں پریشان ہوں اس سلسلے میں“
”ذرا کھل کر کہیے؟“

”وہ اصل میں میں چاہتی ہوں کہ دیکھ کر آپ بتا دیں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے نا، میرا مطلب ہے کہ بلیڈنگ ہو گی نا“ وہ رک رک کر بولی۔

”اوہ تو آپ ہائمن چیک کروانا چاہتی ہیں؟“ ہم نے کہا
”جی جی، وہ بس کچھ پریشانی ہے“

”کیا آپ کبھی جنسی عمل سے پہلے گزری ہیں؟ خدا نخواستہ ریپ یا کوئی غلطی؟“
”نہیں جی، ایسا کچھ نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت ڈر لگ رہا ہے۔ رات کو سوتے میں آنکھ کھل جاتی ہے، پسینہ پسینہ ہو جاتی ہوں، دل زور زور سے دھڑکتا ہے، رونے کے جی چاہتا ہے“

”ڈریے نہیں، آپ لیٹئے میں دیکھ لیتی ہوں لیکن یاد رکھیے کہ پہلی دفعہ جنسی عمل کے دوران بلیڈنگ ہونا قطعی لازمی عمل نہیں۔ ہائمن ایک جھلی ہے جو ویجائنا کی دیوار پہ ایک دائرے کی صورت لگی ہوتی ہے۔ ایسا دائرہ جو درمیان میں سے کھلا ہو۔ اب اگر ہائمن بہت نرم ہو تو آرام سے جنسی عمل ہو جائے گا کوئی خون وغیرہ نکلنے کا امکان نہیں۔

ایک اور بات جو فراموش کر دی جاتی ہے کہ اگر شوہر کا عضو حجم اور ہئیت میں نارمل سے کچھ کم ہے تو تب بھی بلیڈنگ ہونی مشکل ہے جبکہ جنسی عمل بھی ہو جائے گا اور حمل بھی۔ بلیڈنگ ہونے کے لئے دو سخت چیزوں کا رگڑ کھانا ضروری ہے۔ جیسے اگر جلد پہ بے خیالی میں کوئی کھردری چیز سختی سے لگے تو جلد لال ہو جائے گی۔
ویجائنا ایک نالی نما عضو ہے جو بند نہیں، جس کی سیل توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اب سوچو کہ اگر ہائمن بھی نرم ہو اور مردانہ عضو بھی کچھ ایسا ہی ہو تو پھر؟
بیٹی تم ڈرو نہیں! یہ سب جہالت کا خناس ہے۔ لیکن چلو پہلے تمہارا معائنہ کرتے ہیں “
ہم نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔

”آپ ٹو فنگر ٹیسٹ تو نہیں کریں گی نا؟“ وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
”یہ ٹو فنگر ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟“ ہمیں ہنسی آ گئی۔

”وہ جی کہتے ہیں کہ ہائمن کی جانچ کے لئے دو انگلیاں ویجائنا میں ڈالی جاتی ہیں۔ عموماً ریپ کے بعد یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے“ وہ آہستہ سے بولی۔

”دیکھو ہم قطعاً نہیں جانتے کہ ٹو فنگر ٹیسٹ کس بزرجمہر کا آئیڈیا تھا۔ ہائمن کو چھونے کی نہیں، دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی باہر سے۔ انگلی ڈال کر ٹٹولنے سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ بھی سن لو کہ ہر عورت کی ویجائنا کی چوڑائی اس کے جسم کے مطابق ہوتی ہے، لحیم شحیم عورت کی ویجائنا میں دو کیا چار انگلیاں سما سکتی ہیں۔ اور اگر عورت کی جسامت نہ بھی دیکھیں کون نہیں جانتا کہ بچے کا فٹ بال سا سر اسی ویجائنا سے باہر نکلتا ہے۔ ویجائنا بیک وقت نازک بھی ہے اور طاقتور بھی۔ ریپ میں لہو کے آنسو روتی ہے اور زچگی میں جان پہ کھیل جاتی ہے۔

ہائمن کی ساخت کا معائنہ ایک خاص طریقے سے کیا جاتا ہے، محض باہر سے کیونکہ ہائمن ویجائنا کے ابتدائی حصے میں ہوتی ہے۔ اور یہ بھی سن لو کہ ہائمن بعض اوقات جنسی عمل کے باوجود اپنی اصل ہیئت میں موجود رہتی ہے۔ زچگی کے وقت بھی دیکھی جا سکتی ہے“

”بس جی وہ شوہروں کو بہت امید ہوتی ہے نا بلیڈنگ کی“ وہ بولی۔
”کیا تم اپنے ہونے والے شوہر کو جانتی ہو؟“

”جی، پچھلے پندرہ برس سے، ہم ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں۔ ماں باپ شادی کے لئے راضی نہیں تھے اس لئے ہم دونوں انتظار کر رہے تھے“
”یعنی کہ تم دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہے۔ اور ایک دوسرے کا پندرہ برس سے انتظار ہو رہا ہے“ ، اب ہکلانے کی ہماری باری تھی۔
”جی، بس بہت محبت ہے ہم دونوں میں“

”پھر تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔ تم اس سے بات کر لو کہ ہائمن سے بلیڈنگ ہونا ضروری نہیں، پہلی بات اور دوسری یہ کہ کیا تمہیں جاننے کے باوجود اسے ثبوت چاہیے کہ یہ عمل کرنے والا وہ پہلا مرد ہے؟“

”وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میری زندگی میں اس کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔ میں تو محبت کے باوجود اس کے قریب نہیں گئی کبھی۔ لیکن یہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی“ وہ سر جھکا کر بولی۔

”کیوں؟ کیا تم دونوں محبت نہیں کرتے؟“
”جی کرتے ہیں بہت زیادہ“

”پھر میرے ایک سوال کا جواب دو؟ یہ کیسی محبت ہے جس میں اعتماد نہیں؟ یہ کیسی محبت ہے جو تمہیں زچ کر رہی ہے کہ تم ثبوت دینے کا سوچو؟ یہ کیسی محبت ہے جو لب کشائی کی اجازت نہیں دیتی، محض خوفزدہ رکھتی ہے۔

آخری بات کیا تمہارے ”ان“ کو بھی فکر ہے کہ وہ کیا ثبوت دیں گے کہ ان کے لئے بھی یہ پہلا موقع ہے؟ اور کیسے دیں گے؟ کیا وہ بھی کسی ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھے ہلکان ہو رہے ہوں گے؟“

اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ویسے یہ سوال تو معاشرے کی ان سب عورتوں کو اٹھانا چاہیے جو اپنی ہائمن کے متعلق خدشات پہ دن رات مصلوب ہو رہی ہیں۔

About The Author