نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قانون وانصاف کمیٹی میں اپوزیشن کے ہاتھوں حکومت کی ایک اورشکست

قانونی مسودوں پر گرما گرم بحث کے بعد متحدہ اپوزیشن کا ترمیمی بلوں پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ

قومی اسمبلی کی قانون وانصاف کی قائمہ کمیٹی میں نیب کے دوسرے اور تیسرے ترمیمی بلوں پر اپوزیشن کے ہاتھوں حکومت کی ایک اورشکست

قانونی مسودوں پر گرما گرم بحث کے بعد متحدہ اپوزیشن کا ترمیمی بلوں پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ وزیرقانون ڈاکٹر فروغ نسیم ضروری ٹیلی فون کا کہہ کر اجلاس سے چلے گئے، کمیٹی کے چئیرمین ریاض

فتیانہ نے عجلت میں اجلاس ملتوی کردیا
کمیٹی میں ووٹنگ نہ کرانے پر اپوزیشن کا شدید احتجاج ، اقدام کو حکومتی شکست سے تعبیر کردیا رانا ثناءاللہ

سید نوید قمر، خواجہ سعد رفیق، عالیہ کامران، محمود بشیر ورک، محسن شاہ نواز رانجھا سمیت دیگر ارکان کا

شدیداحتجاج، میڈیا سے گفتگو

 قومی اسمبلی کی قانون وانصاف کی قائمہ کمیٹی میں نیب کے دوسرے اور تیسرے ترمیمی بلوں پر اپوزیشن کے ہاتھوں حکومت کی ایک اورشکست ہوگئی۔

قانونی مسودوں پر گرما گرم بحث کے بعد متحدہ اپوزیشن نے ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا جس پر وزیرقانون ڈاکٹر فروغ نسیم اجلاس سے چلے گئے

جبکہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے چئیرمین ریاض فتیانہ نے عجلت میں اجلاس ملتوی کردیا

جس پر متحدہ اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ قانون وانصاف کا اہم اجلاس ہوا۔

وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اجلاس میں آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے آئے۔ اجلاس میں اپوزیشن کے 10 ارکان کے مقابلے میں حکومت کے پانچ ارکان موجود تھے۔

قائمہ کمیٹی قانون انصاف میں نیب ترمیمی بل پر گرما گرم بحث ہوئی اور اپوزیشن ارکان نے وزیر قانون پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ نے کہاکہ ترمیمی بل میں کابینہ کے اجتماعی فیصلوں کو نیب کے دائرہ سے نکال دیا گیا ہے۔

کابینہ کے اجتماعی فیصلوں پر پھر کونسا ادارہ ایکشن لے گا؟ وزیر قانون فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کابینہ کے فیصلہ پر کاروائی کر سکتے ہیں۔ جس پر رانا ثناءاللہ نے کہاکہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کا سربراہ حکومت خود لگاتی ہے۔

ان اداروں کے سربراہان کو قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں۔ اس سے تو بہتریہ ہی تھا کہ یہ معاملات نیب کے پاس ہی رہتے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے جواب دیا کہ نیب چئیرمین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہاکہ ماضی میں ہم نے مواقع گنوائے ہیں، ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

محمود بشیر ورک نے کہاکہ نیب قانون میں لائی گئی ترامیم نیک نیتی سے نہیں لائی گئی ہیں۔ چئیرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع اس کی ایک مثال ہے۔

نیب قانون کے ذریعے لوگوں پر ظلم کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ نیب ترامیم کو مسترد ہونا چاہیے۔ توسیع جیسی ترامیم کو نکال دیں تو ساتھ دینے کو تیار ہیں۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار مخصوص حالات میں ہوتا ہے۔ نیب کے جاری کردہ آرڈیننس آئین کی روح کے منافی ہیں۔ نیب آرڈیننس واپس لے کر حکومت کمیٹی میں آئے تو مل کر قانون سازی کریں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ صوبائی چیف جسٹس کو ججز تعیناتی کے اختیار سے باہر کیوں رکھا گیا؟ ریٹائرڈ ججز کو کس خوشی میں ہائیکورٹ کے جج کے برابر مراعات ملیں گی؟ جو بھی حکومت ہوگی ریٹائرڈ جج اس کے انگوٹھے کے نیچے ہوگا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ چیئرمین نیب جو بھی ہو اسے چار سال بعد گھر جانا چاہیے، توسیع کی ضرورت نہیں۔ صدر کو اختیار دینے کا مطلب ہے چیئرمین نیب حکومت کی م±ٹھی میں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ 2020 کے بعد والے وزراءاور بیوروکریٹ بچ جائیں۔ عدالت سے یہ قانون پہلی پیشی میں ہی ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ کمیٹی میں نیب ترمیمی بل پر بحث ہونی ہے۔ قبل ازیں عالیہ کامران نے کہاکہ حکومت چاہتی ہے کہ وزیر قانون کے اجلاس میں نہ آنے پر اپوزیشن واک آوٹ کر جائے۔

محسن شاہ نواز رانجھا نے کہاکہ نیب ترمیمی بل حکومت کا این آر او ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا کہ

نیب ترمیمی بلوں پر کمیٹی میں ووٹنگ کرائی جائے۔ اپوزیشن کے احتجاج اور اصرار پر وزیر قانون اجلاس سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ انہیں ایک ضروری فون آگیا ہے۔

چئیرمین کمیٹی نے صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا جس پر متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اور اس اقدام کو حکومت کی شکست سے تعبیر کیا۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے ملیر کورٹ میں خاتون پر تشدد کا نوٹس لیا۔ رکن کمیٹی لال چند نے کہاکہ

ملیر کورٹ میں خاتون لیلیٰ پروین نے اپنے شوہر کیخلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ وکلاءہمارے لیے محترم ہیں

پاکستان بھی ایک وکیل نے بنایا تھا۔ وکلاءکے تحفظ کیلئے ہم قانون سازی کرتے ہیں۔

ایک خاتون پر عدالت میں وکلاءنے تشدد کیا۔ چئیرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہاکہ

پوری کمیٹی خاتون پر تشدد کے واقعہ کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

کمیٹی نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔

About The Author