وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات اس نکتے سے شروع ہوئی تھی کہ مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو اس مطالبے کی تشریح میں موعودہ مملکت کے باشندوں سے کیا وعدے کئے۔ اور جب تقسیم کا مرحلہ طے کیا جا رہا تھا تو زمینی حقائق میں کیا تبدیلیاں آئیں۔ مملکت کے بانی نے نئے ملک کا افتتاح کرتے ہوئے ملک کے باشندوں کو کیا یقین دہانیاں کرائیں اور ان کے لئے کیا نصب العین طے کیا۔ پھر کچھ ذکر چلا کہ اس اعلیٰ ترین دستاویز کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کیا داﺅ پیچ آزمائے گئے۔ کہیں یہ ذکر بھی چلا آٓیا کہ قائد اعظم کی تقریر کو روکا نہ جا سکا تو شبیر احمد عثمانی نے کن الفاظ میں اس تقریر کی مخالفت کی۔ نیز یہ کہ قائد کی تقریر سے بالکل متضاد دستاویز یعنی قرار داد مقاصد کا مسودہ مرتب کرنے میں شبیر احمد عثمانی نے کیا کردار ادا کیا۔ اس پر کچھ مخالف دلائل سامنے آئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرار داد مقاصد پر وسیع تر مشاورت کی گئی تھی حتیٰ کہ ملتان جیل میں مقید مولانا ابواعلیٰ مودودی کو بھی قرار داد کا مسودہ دکھایا گیا تھا۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہی ہے کہ مولانا سے قرار داد کے مسودے پر استصواب کا کوئی حوالہ، کوئی ثبوت اور کوئی شواہد اس دعوے کے اگر موجود ہیں تو سامنے لائے جائیں۔ فی الوقت قرار داد مقاصد کے ضمن میں مولانا کا کچھ ذکر ریکارڈ پر موجود ہے اور کچھ اس پیرائے میں کہ قائد حزب اختلاف سریش چندر چٹوپادھیا نے مولانا مودودی کے کچھ افکار کا حوالہ دے کر قرار داد مقاصد کے مضمرات واضح کرنا چاہے، اس پر عبدالرب نشتر نے اعتراض مسترد کوتے ہوئے ارکان اسمبلی کو یاد دلایا کہ "جانتے ہو وہ شخص (مودودی) کہاں ہے؟ وہ جیل میں ہے۔ ” مطلب یہ تھا کہ مودودی کی یہ حیثیت نہیں کہ اس قرار داد کو استعمال کر سکے نیز یہ کہ حکومت قرارداد کی ممکنہ تشریح میں مودودی کے خیالات سے متاثر ہونے پر تیار نہیں تھی۔ اسی تناظر میں قرار داد مقاصد منظور ہونے کے بعد مولانا ابواعلیٰ مودودی کا وہ اداریہ یاد فرمائیے جس میں سید صاحب نے کہا کہ "قرار داد سے پہلے بارش ہوئی اور نہ بعد میں روئیدگی۔”
ایک دفعہ جب مودودی صاحب کا ذکر بحث میں آ جائے تو جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے اصحاب اس نوع کے مواقع ضائع نہیں کیا کرتے۔ ایک محترم بھائی نے "اسلام ، قائد اعظم اور مولانا مودودی” کے عنوان سے ایک مضمون باندھا ہے اور اس میں منجملہ دیگر نکات کے ایک دلچسپ دعویٰ یہ کیا گیا کہ "اسلامی نظام حیات کی اصطلاح کا ایک قومی تناظر ہے جس میں قائد اعظم نے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے اور ایک دینی تناظر ہے جس میں مولانا مودودی اس کا استعمال کرتے ہیں۔” یہ تو وہی قدیمی موقف ہے کہ جماعت اسلامی مطالبہ پاکستان کی مخالف نہیں تھی۔ جماعت اسلامی کا موقف تو یہ تھا کہ مسلم لیگ کے پاس وہ مردان کار موجود نہیں ہیں جو اس نصب العین کو حاصل کر سکیں۔ بس یہیں رکیے۔ دو نکات پر بات کر لیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا جماعت اسلامی قیام پاکستان کی حامی تھی اور دوسرے یہ کہ جن مسلم لیگی رہنماﺅں کی بصیرت، اہلیت اور دیانت پر انگلی اٹھائی جا رہی تھی وہ کون تھے۔ اس گزارش کو مدنظر رکھئے کہ خاکسار ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ کے حصہ سوم کا حوالہ نہیں دے رہا جس کا 1941ء میں پٹھان کوٹ سے مطبوعہ نسخہ بہت سے احباب کے پاس موجود ہے۔ میرا موقف تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے قائدین پاکستان بننے کے بعد بھی تصور پاکستان اور بالخصوص قائداعظم کے سخت مخالف رہے۔ یہ کہنا تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ پاکستان کے بنتے ہی جماعت اسلامی کے پائیں باغ میں کاہ مخملیں اور نہر عسل کے منظر کھل گئے تھے۔ نیز یہ کہ مسلم لیگی قیادت خالص آئینی امور پر مولانا مودودی سے مہر تصدیق ثبت کرواتی تھی۔
جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ ’کوثر ‘ نے 16 نومبر 1947ء کو لکھا ۔ ”ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے“۔
مولانا مودودی نے جماعت اسلامی (لاہور )کے اجتماع میں فرمایا۔ ”ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو ۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے“۔ (بحوالہ روز نامہ انقلاب 9 اپریل 1948ء)
ترجمان القرآن نے جون 1948ءکے اداریے میں لکھا ۔ ”یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے…. کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے“۔ اسی شمارے میں مزید فرمایا ” جونہی انگریز اور کانگرس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی۔ تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پاﺅں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی“۔
حمید نظامی نے 4 جولائی 1948ء کو نوائے وقت میں اداریہ لکھا ”ہم ان لوگوں کے حامی نہیں جو محض اپنی لیڈری چمکانے کے لیے شریعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ …. (بہتر ہو گا کہ) شہر بہ شہر جلسوں میں قائداعظم کو گالیاں دینے اور سوقیانہ تقریروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ مرتب کیا جائے ۔ “
مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے شمارہ جولائی 1948ءمیں لکھا۔ ”مسلمانوں نے اپنی ساری قومی طاقت، ذرائع اور جملہ معاملات اس قیادت کے سپرد کر دیے جو ان کے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس بعد اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے ۔ جو کچھ ہو چکا وہ تو ان مٹ ہے۔ البتہ اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں ۔ کیا ان کے حل کے لیے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اسی طرح حل کر چکی ہے۔ کیا اس کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ جو نازک مسائل ہمارے سر پر آ پڑے ہیں۔ جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، انہیں حل کرنے کے لیے ہم اس پر اعتماد کریں“۔
اس کے جواب میں حمید نظامی نے 31 جولائی 1948ء کو اداریہ لکھا ”حضرت مولانا نے دس سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائداعظم مانا جائے۔ اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے…. اپنا پروگرام نہ بتانا اور نعروں سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائداعظم کو احمق ، غلط کار اور دین میں ہلکا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا رہنا ہرگز آپ کے شایان شان نہیں۔ قائداعظم کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا ہے۔ آپ قائداعظم کو ہزار گالیاں دیجئے ۔ مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ “
مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے 9 اگست 1948ء کو جھنگ میں کہا ”لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اس لیے حاصل کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر اسلامی خلافت چلائی جائے گی بلکہ یہ قومیت کی جنگ تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیگ کی قراردادوں کا جائزہ لیجئے ۔ لیگ نے آج تک تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو گا۔ “۔
اس کے جواب میں نوائے وقت نے 18اگست 1948ءکو اداریہ سپرد قلم کیا ۔ ”پاکستان میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کی تقریر و تحریر کا زور یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ (مسلمانوں) کی اس مصیبت کی ذمہ داری قائداعظم کی لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے۔ قائداعظم نے پے در پے مہلک غلطیاں کیں اور مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے اس غار میں لا پھینکا جس کا نام پاکستان ہے“۔
ایک ہفتے بعد 25اگست 1948ءکو حمید نظامی نے پھر لکھا ۔ ”بظاہریہ جماعت (اسلامی) کہتی ہے کہ ہم قائداعظم کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کر رہے ۔ لیکن معاف کیجئے یہ بیان صحیح نہیں ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ قیادت کو مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا دراصل قائداعظم اور صرف قائداعظم کی ذات ہی پر حملہ ہے۔ “
پروفیسرسراج الدین فرمایا کرتے تھے کہ والدین کا بچوں پر شفقت کرنا فطرت ہے جبکہ بچے والدین سے جو سلوک کرتے ہیں اسے تہذیب کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے بزرگوں نے ہمیں کیا دعائیں دیں۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں فرمایا "اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کر کے اِس عزم کے ساتھ کام کریں کہ آپ میں سے ہر فرد، قطع نظر اس سے کہ اِس کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے، یا یہ کہ اُس کا رنگ، ذات یا عقیدہ کیا ہے، وہ اول و آخر یکساں حقوق، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اِس ریاست کا شہری ہے، تو آپ جتنی ترقی کریں گے، اُس کی کوئی حد نہیں ہو گی۔”
جمہوریت میں قائد حزب اختلاف قوم کا متبادل رہنما ہوتا ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سریش چندر چٹوپادھیا نے 12 مارچ 1949ءکو فرمایا ”میں آپ کے خلاف کوئی عناد نہیں رکھتا۔ میری دعا ہے کہ آپ کی راہ کھوٹی نہ ہو۔ آپ ترقی اور خوش حالی پائیں، پاکستان کی نوزائیدہ مملکت ایک عظیم قوم بنے اور قوموں کی برادری میں قابل احترام مقام پائے“۔
قائداعظم کی قابل احترام ذات کی آڑ میں دائیں بازو کی سیاست کا ڈھول پیٹنے والے مہربانوں سے گزارش ہے کہ اگر انہوں نے گوئٹے کے فاﺅسٹ کی طرح اقتدار، رسوخ اور ناانصافی کے ابلیس کے ہاتھوں اپنی روح بیچ نہیں دی تو صرف یہ کر دیں کہ قائد اعظم کے تصور پاکستان اور طالبان کے تصور سیاست میں فرق بیان کر دیں ۔ کیونکہ حالیہ عرصے میں خود کو دین دار قرار دینے والے عناصر کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پھولے نہیں سما رہے۔ یہ ان کے لئے سنہری موقع ہے کہ ذیل کے دو نکات واضح کر دیں
کیا قائد اعظم کا تصور سیاست اور طالبان کا تصور سیاست ایک ہی تھا؟
اگر قائد اعظم کا تصور سیاست اور طالبان کا تصور سیاست میں فرق تھا تو یہ عناصر واضح کریں کہ قائد اعظم اور طالبان کے تصور سیاست میں کیا فرق تھا؟ اور یہ حضرات دونوں میں سے کس کے تصور سیاست کو اسلام کے قریب پاتے ہیں
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر