رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ اور دھلی سرکار نے گھٹنے ٹیک دئیے ۔ انڈیا کے احتجاجی کسانوں کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے ۔۔۔۔
"ھم کسان ہیں "۔ "ھم ھی پالنہار ہیں "۔ "انڈین عوام کو رزق اور لباس دینے والے ھم ہیں انڈین سرکار نہیں”۔ "جمہوریت یہ نہیں کہ سرکار کیا کہتی ھے؟”، "جمہوریت یہ ھے کہ ھم عوام کیا چاہتے ہیں ؟”۔ "ھم ( نچلی ذات اور اچھوت) امبیڈکر کی اولادیں ہیں” ۔ اور "ھم شھید بھگت سنگھ کے پیروکار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
یہ وہ نعرے تھے، یہ وہ باتیں تھیں جو انڈین کسان اپنے احتجاج کے دوران لوگوں سے کرتے تھے ۔ یہ کوئی خالی باتیں اور خالی خولی نعرے نہیں تھے۔ ان نعروں اور باتوں کے پیچھے سب کچھ لُٹ جانے کا کرب تھا اور کچھ نہ بچ جانے کا خوف تھا ۔ ان نعروں اور باتوں کے پیچھے صرف کرب اور خوف ھی نہیں تھا ایک عزم تھا ، ایک حوصلہ تھا ، ایک سچ تھا ۔۔۔۔۔ کونسا عزم ؟ کون سا حوصلہ اور کون سا سچ ؟
کارل مارکس کے اس عالمی سلوگن کا حوصلہ، اور عزم کہ
” دنیا بھر کے محنت کشو ! ایک ہو جاؤ ، تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ھے”۔ اور سوشلسٹ انقلاب روس کے بانی کامریڈ لینن کا وہ سچ تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ ” محنت کش طبقے کے پاس طاقت ہوتی ھے مگر اسے اپنے طاقتور ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔ ھمارا فریضہ اس طاقت اور یقین کو جوڑنا ھے ۔۔۔ ”
انڈیا کے محنت کشوں ، کسانوں کی یہ جیت ایک زبردست طمانچہ ھے سامراجی دانش کے دودھ اور ٹکڑوں پہ پلنے والے ان باگڑ بلوں کے منہ پر جو بات بات پر بکتے رہتے ہیں کہ ” لوگ بے حس ہیں” ، ” لوگ نہیں اٹھتے” ۔ اور جب لوگ اٹھتے ہیں تو یہ بکاؤ دانشور اور تجزیہ نگار بکواس کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ "کچھ نہیں ہوتا ” ، "کچھ نہیں ہونے والا اور اس یا ایسے احتجاجوں کا کوئی فائدہ نہیں "۔۔۔۔
ھم انڈیا کے احتجاجی کسانوں ، محنت کشوں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو سرخ سلام کہتے ہیں ۔ ھم انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔ ان کی فتح ہماری فتح ھے۔ دنیا بھر میں کسی ایک جگہ کے محنت کشوں کی فتح دنیا کے باقی محنت کشوں کی فتح کی بنیاد بنتی ھے۔ آج انڈیا کے مودی اور سرمائے کے گماشتہ حکمرانوں نے گھٹنے ٹیکے ہیں تو کل یہی شکست پاکستان کے حکمران طبقے کا مقدر بنے گی۔ اگلی بار کسی ملک کا حکمران شکست سے دوچار ہوگا تو اس کے بعد ایک اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کے درد ، کرب ، مسئلے، دکھ ، ذلتیں اور اذیتیں مشترک ہیں۔ دنیا بھر کے حکمران اور حکمران طبقہ آپس میں ایک ہیں اور ایک جیسے خبیث ہیں ۔ ان کے مفادات مشترک ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور ھمارے دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد اور فتح مشترک ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر