نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئندہ نسلوں کی سوچ||ظہور دھریجہ

پاکستان کے تین اہم دریا ڈیمز کے نام پر بھارت کو دیئے گئے مگر منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی اور ڈیم تعمیر نہیں ہوا اگر ہم صرف ایک ڈیم کو دیکھ لیں جس کا نام بھاشا ڈیم ہے تو یہ ڈیم بھی ایک بہت بڑے گورکھ دھندے کی صورت میںسامنے آتا ہے ۔بھاشا ڈیم کے حوالے سے کرپشن کے اتنے واقعات سامنے آئے ہیں کہ سوال ہونے لگا ہے کہ کیا بھاشا ڈیم ایک گورکھ دھندہ ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

للہ تا جہلم شاہراہ کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آئندہ الیکشن نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے بارے میں سوچا ہے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 50برس میں پہلی مرتبہ ملک میں 3بڑے ڈیم بن رہے ہیں ، آئندہ 10سالوں میں 10ڈیمز بنیں گے ۔ ڈیمز کے حوالے سے وزیر اعظم کا اعلان خوش آئند ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈیمز کے نام پر صرف سیاست کی گئی یا پھر کرپشن، جبکہ ہمسایہ ملک ہندوستان نے عملی طور پر بہت ڈیم بنا لئے ،
 پاکستان کے تین اہم دریا ڈیمز کے نام پر بھارت کو دیئے گئے مگر منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی اور ڈیم تعمیر نہیں ہوا اگر ہم صرف ایک ڈیم کو دیکھ لیں جس کا نام بھاشا ڈیم ہے تو یہ ڈیم بھی ایک بہت بڑے گورکھ دھندے کی صورت میںسامنے آتا ہے ۔بھاشا ڈیم کے حوالے سے کرپشن کے اتنے واقعات سامنے آئے ہیں کہ سوال ہونے لگا ہے کہ کیا بھاشا ڈیم ایک گورکھ دھندہ ہے۔
کرپشن کے تذکرے سے پہلے میری گزارش یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے پر منفی کی بجائے مثبت سوچ ہونی چاہئے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ڈیم کی بقاء ترقی کے لئے ناگزیر ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم پر خود پہرہ دوں گا ۔ لاہور رجسٹری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پانی سے متعلق وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا نام زندگی ہے ، ڈیم ہر صورت مکمل کیا جائے گا اور اس کیلئے مجھے جھونپڑی میں بھی رہنا پڑا تو رہوں گا۔ یہ خیالات قابلِ قدر تھے مگر وہ چلے گئے ڈیم کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ،
سوال یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے رقم جمع کی گئی اس بارے پیشرفت ہی نہیں ہوتی تو کیا فائدہ۔ مسلسل تعمیر ہونے والے بھاشا ڈیم کی کپیسٹی تقریباً تربیلا و منگلا ڈیم کے برابر یعنی 6.1ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ اس سے 4500 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی ۔ زمین کی خریداری پر 1 کھرب سے زائد سرمایہ خرچ ہو چکا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کیلئے مزید1400 ارب درکار ہیںجو کہ پاکستان جیسے مقروض ملک کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے اتنی بڑی رقم کا انتظام کر سکے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں رہنے والے سرمایہ دار بھاشا ڈیم کیلئے اپنا حصہ شامل کریں لیکن حکومت کو بھی اس طرح کا ماحول بنانا چاہئے کہ اعتماد بحال ہو ، امداد دینے والے کو یقین ہو کہ اس کا دیا گیا سرمایہ کرپشن پر نہیں بلکہ اصل مقصد پر خرچ ہوگا۔
قابلِ صد افسوس امر یہ ہے کہ سابقہ ادوار میں بھاشا ڈیم کی تعمیرکے نام پر بہت زیادہ لوٹ مارکے واقعات سامنے آ چکے ہیں ،بھاشا ڈیم کے علاقے میں زمین کی خریدو فروخت کی تحقیقات ہونی چاہئے، عجب بات ہے کہ جہاں فروخت کا تصور بھی نہ تھا ، وہاں حکمرانوں نے اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین ،اپنے قریبی رشتہ داروں اور کھیتوں و کارخانوں میں کام کرنے والے قابلِ اعتماد ، ذاتی ملازموں کے نام دو دو ، چار چار سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمینیں خرید کر کے پلاننگ ڈویژن کی ملی بھگت سے کروڑوں میں حکومت کو فروخت کر دیں ۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہت سی زمینیں کسی کے نام پر نہیں ۔ وہاں پہاڑ ہیں جو ویران پڑے ہیں ،زمینوں کی الاٹمنٹ بوگس اور فرضی طور پر کی گئی ،اس سلسلے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان اپنے قومی خزانے سے پاکستانی ڈیمز کے خلاف راہ ہموار کرنے کیلئے دولت خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستانی حکمران ڈیمز کے نام پر دولت ہڑپ کرتے آ رہے ہیں ۔ بے اعتمادی کی بہت سی وجوہات ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ’’ قرض اتارو ، ملک سنوارو ‘‘کے نام پر بہت سرمایہ اکٹھا کیا لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ وہ سرمایہ کہاں گیا؟
 ۔ پانی کی ضرورت و اہمیت سے سب واقف ہیں ، پانی کی کمی کو دور کرنے کیلئے ڈیمز کے سوا کوئی چارہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ بھارت ڈیم پے ڈیم بنائے جا رہا ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیر کے ان علاقوں میں بھی ڈیم بنا رہا ہے جو متنازعہ ہیںلیکن عالمی برادری کو اس پر اعتراض نہیں ، مگر پاکستان کے خلاف اعتراض پے اعتراض ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ پاکستان نے کالاباغ ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا تو اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا۔ کالا باغ ڈیم متنازعہ مسئلہ نہ تھا ، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس کی مکمل فزیبلٹی تیار ہو چکی تھی ، اسے ضیاء الحق اور ان کے چہیتے گورنر سرحد جنرل فضل الحق نے سب سے پہلے متنازعہ بنایا ۔
 اس ڈیم کا جرم یہ تھا کہ یہ سرائیکی علاقے میں بن رہا تھا، اس کے بعد اس ڈیم کے خلاف سیاسی طوفان اٹھایا گیا اور بھارتی لابی نے بھی اس میں حصہ ڈالا اور بھارت نے این جی اوز کی معرفت سرمایہ خرچ کر کے اسے متنازعہ ترین بنا دیا ۔ پرویز مشرف کا دور آیا ، پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم کا نعرہ لگایا ، وہ با اختیار تھے ، پرویز مشرف کو عدلیہ کی طرف سے یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ آئین میں جو چاہیں ترمیم کر سکتے ہیں ، حالانکہ پوری دنیا میں اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں تھی ۔ اگر وہ چاہتے تو ڈیم بنا سکتے تھے مگرانہوں نے کالا باغ ڈیم نہ بنایا اور بھاشا ڈیم کا لولی پاپ دے دیا ۔
بھاشا ڈیم وہ بد قسمت ڈیم ہے جس کا افتتاح پرویز مشرف نے کیا ، اس کے ساتھ ساتھ شوکت عزیز ، یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف باری باری اس کے افتتاح کر چکے ہیں مگر تکمیل کی منزل ابھی کوسوں دور ہے،وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے آئندہ نسلوں کی سوچ والی بات بجا اور درست ہے کہ مزید ڈیمز بننے چاہئیں مگر ان کی طرف سے 10نئے ڈیم بنانے کا اعلان بھاشا ڈیم کی طرح نقش برآب ثابت نہ ہو ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author