نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بااختیار سیکریٹریٹ ۔وزیر خارجہ اور وزیر اعلیٰ بے بس !||افتخار الحسن

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ڈی جی خان کو ہی جنوبی پنجاب سمجھ کر ڈیرہ غازی خان میں اربوں روپے کے منصوبے دئیے اور باقی علاقوں کو مکمل نظر انداز کر دیا ایک یہ ہی منصوبہ تھا کہ الگ سیکرٹریٹ سے شاید جنوبی پنجاب کے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف کی فراہمی ممکن ہو سکے ۔

افتخار الحسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب وقت بہت کم ہے مگر جنوبی پنجاب کے عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں ۔ ڈی جی خان کے علاقوں میں جہاں ان کا اپنا آبائی شہر تونسہ شریف اور کوہ سلیمان میں بھی شامل ہیں یقینا اربوں روپے کے منصوبے مکمل ہوچکے اور بیشتر پر کام جاری ہے پانچ سال بعد شاید ڈی جی خان کی محرومیوں کا خاتمہ ہو سکے مگر جنوبی پنجاب کے دوسرے اضلاع اس دور میں سابقہ ادوار سے زیادہ محرومیوں کا شکار ہوا ہے ۔

جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کا ایک ہی منصوبہ تھا جس کو جنوبی پنجاب کے عوام عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر طاقت ور بیوروکریسی اس منصوبے کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کے حوالہ سے ایک بار طاقت کے ساتھ بیوروکریسی نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ماموں بنا کر سب کچھ رول بیک کردیا جس کی ہائی لیول انکوائری کرائی گئی مگر بیوروکریسی کب اپنے بیوروکریٹ کے خلاف کارروائی کرتی ہے ہمیشہ عوام اور حکمرانوں کو بیوقوف بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ جنرل الیکشن میں وعدہ کیا کہ ہر صورت جنوبی پنجاب کے عوام کو الگ صوبہ دیں گے جس کیلئے جنوبی پنجاب کے عوام نے بھرپور ووٹ دئیے اور تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جنوبی پنجاب میں کامیاب ہوئے بلکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا وجود جنوبی پنجاب کے عوام کی ہی مرہون منت ہے ورنہ وسطی پنجاب سے تحریک انصاف کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف نے مینڈیٹ کا بہانہ بنا کر الگ صوبہ دینے سے تو صاف انکار کردیا اور الگ سیکرٹریٹ دینے کا اعلان کردیا جو تین سال گزرنے کے باوجود اپنی تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ڈی جی خان کو ہی جنوبی پنجاب سمجھ کر ڈیرہ غازی خان میں اربوں روپے کے منصوبے دئیے اور باقی علاقوں کو مکمل نظر انداز کر دیا ایک یہ ہی منصوبہ تھا کہ الگ سیکرٹریٹ سے شاید جنوبی پنجاب کے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف کی فراہمی ممکن ہو سکے ۔ الگ سیکرٹریٹ کے اعلان کے بعد عمل بھی کردیا گیا مختلف محکموں کے سترہ سیکرٹریز تعینات کردئیے گئے جو تاحال بے اختیار ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے آج بھی عوام کو اپنے کام کاج کیلئے لاہور ہی جانا پڑتا ہے اور اصل اختیارات لاہور بیٹھی بیوروکریسی کے پاس موجود ہیں ۔

چند ماہ قبل جب ایک سازش کے تحت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب طیش میں آئے مگر اس کا بھی کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا کام وہیں کا وہیں ہے اب جنوبی پنجاب کے عوام جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں اختیارات منتقل نہ کرنے کا ذمہ دار خود وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو ہی ٹھہرا رہےہیں کیونکہ ایک یہ ہی منصوبہ تھا جو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے کریڈٹ میں جاتا مگر طاقتور بیوروکریسی نے اب تک وزیر اعلیٰ کو ماموں بنایا ہوا ہے یا پھر اپنے مفادات کیلئے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی شامل کرلیا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب الگ سیکرٹریٹ کے حوالے سے مکمل خاموش نظر آتے ہیں

اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی الگ سیکرٹریٹ کے حوالے سے اس کو تحریک انصاف کا تاریخی کارنامہ بنا کر پیش کررہے تھے مگر صورت حال جوں کی توں ہے پہلے سے بھی زیادہ عوام خوار ہورہی ہے سترہ سیکرٹریز خزانہ پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں دگنے مراعات حاصل کرنے کیلئے افسران تعینات تو ہوجاتے ہیں مگر جلد ہی اختیارات نہ ہونے کے باعث مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں آدھا سیکرٹریٹ بہاولپور ، آدھا سیکرٹریٹ ملتان اور مکمل سیکرٹریٹ لاہور جہاں تمام تر سیکرٹریز اختیارات کے ساتھ براجمان ہیں عوام کو شٹل کاک بناکر رکھ دیا گیا ہے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس الگ سیکرٹریٹ کو اپنا اپنا کریڈٹ بنا کر عوام کو پیش کررہے ہیں

یقین کریں اگر اختیارات منتقل نہ کئے گئے اور صورت حال اسی طرح رہی اگلے الیکشن میں وزیر اعلیٰ، وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کا یہ کریڈٹ الٹ پڑ سکتا ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اب تک ملتان شہر کو کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں دے سکے بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے تحریک انصاف کی حکومت بشمول وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان کے عوام کیلئے باتوں کے سوا اب تک کچھ نہیں کرسکے ۔

وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملتان کے دوران سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو تاحال منصوبہ پر ایک اینٹ بھی نہ لگ سکی ویسے وزیراعظم نے دورہ ملتان کے دوران متعدد منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے جن میں سے ایک پر بھی ایک سال گزرنے کے باوجود کام شروع نہ ہوسکا اسی طرح ایک ہی منصوبے کا بار بار سنگ بنیاد رکھنے کی رسم تاحال جاری ہے جن منصوبوں کا سنگ بنیاد وزیر اعظم عمران خان نے رکھا انھیں منصوبوں کا سنگِ بنیاد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی متعدد بار رکھا اور وزیر خارجہ نے بھی اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھنے کی رسم کو جاری رکھی ہوئی ہے ۔

الگ سیکرٹریٹ کا کریڈٹ لینے والوں کو یہ بھی خبر رکھنی چاہئے کہ رول آف بزنس کے بعد بھی افسران کے ٹرانسفر پوسٹنگ لاہور سے ہی ہورہی ہیں شہریوں کی کسی بھی فائل کو بہاولپور ملتان کے بار بار دھکوں کے بعد لاہور میں ریلیف فراہم کیا جاتا ہے اگر ایسا ہی کرنا تھا تو خزانہ سے اربوں روپے کا ضیاع محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ہی کیوں کیا گیا تین سال گزرنے کے باوجود الگ سیکرٹریٹ کیلئے اربوں روپے الگ مختص کرنے کے باوجود عوام کو ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچ پایا جو تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیوں کہ جنوبی پنجاب کے عوام کی توقعات تحریک انصاف سے زیادہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر خارجہ سے منسلک تھیں ۔

عوامی عدالت میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اختیارات کی کمی کا عوام کو مقدمہ پیش کرسکتے ہیں مگر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے پاس شاید ان تمام معاملات کا کوئی جواز نہیں رہے گا وقت کم ہے مگر موجود ضرور ہے چاہیں تو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب الگ سیکرٹریٹ تحریک انصاف کیلئے اگلے الیکشن میں معجزہ بھی بن سکتا ہے اور موت بھی

٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظر انداز!||شوکت اشفاق

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

افتخار الحسن  کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author