حسن مجتبیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ 2 نومبر کو ٹھٹھ اور کراچی کے درمیان ملیر کی حدود میں مقامی نوجوان سماجی کارکن ناظم جوکھیو نے موبائل فون کیمرا ہاتھ میں لیے ایک دبئی رجسڑیشن نمبر والی گاڑی کو روکا۔ یہ گاڑی عرب شکاریوں کی تھی۔ جس پر نوجوان نے اعتراض کیا کہ وہ اس کے اس علاقے میں شکار نہیں کر سکتے کہ ان کے یہاں ان کے گھر، عورتیں اور بچے ہیں۔ یہاں وہ تلور نہیں مار سکتے۔ اس پر ایک شخص موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس گاڑی سے اترتا ہے اور موبائیل فون کیمرا لیے نوجوان کے منہ پر گھونسہ مارتا ہے۔ اس تمام واقعے کی وڈیو وائرل ہوئی۔ اس کے بعد وڈیو خالی آتی ہے اور وڈیوز میں نوجوان کی آواز آتی ہے “دوستو دیکھو یہ کس طرح مجھ پر تشدد کر رہے ہیں اور میرا کیمرہ بھی چھین رہے ہیں۔”
یہ عرب شکاری علاقے کے طاقتور جوکھیو سرداروں کے مہمان تھے۔ جب نوجوان نے وہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی تو اسے ٹیلی فون پر دھمکیاں آنے لگیں کہ وہ وڈیو سوشل میڈیا سے ہٹا دے ‘ورنہ تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔’ اس نوجوان ناظم جوکھیو نے ان دھمکیوں سے متعلق اپنے وکیل سے بھی ٹیلی فون پر بات کی۔ نوجوان مقامی تھانے ملیر سٹیشن پر خود پر ہونے والے تشدد اور فون چھیننے کی شکایت درج کروانے گیا لیکن اس کی فریاد نہیں لی گئی۔
رات کو 11 بجے اس نوجوان کے گھر پر گائوں سالار جوکھیو میں سرداروں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اویس گہرام جوکھیو اور ایم این اے عبدالکریم گہرام جوکھیو کا خاص آدمی نیاز سالار آیا اور کہا کہ ناظم جوکھیو کو سرداروں نے بلایا ہے فیصلہ کرنا ہے۔ جب ناظم جوکھیو اپنے بھائی کے ہمراہ سرداروں کی بنگلے پر پہنچا تو اس پر وہ تشدد کرنے لگے اور کہا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی وہ ان کے مہمانوں (عرب شکاریوں) کو تلور کے شکار سے روکے؟ اور ناظم کے بھائی سے کہا کہ ناظم آج رات یہاں رہے گا، وہ اسے صبح لے جائیں۔ دوسرے روز جب اس کا بھائی و دیگر رشتہ دار سرداروں کے بنگلے کے دروازے پر پہنچے تو بنگلے کے باہر ہی انہیں بتایا گیا کہ ناظم جوکھیو ہلاک ہو چکا ہے۔ ناظم جوکھیو کی لاش بھی نہیں دی گئی۔
میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ناظم کی لاش ورثا کو دے دی گئی۔ مقتول ناظم کے خاندان اور برادری والوں نے قومی شاہراہ پر 15 گھنٹے احتجاجی دھرنا دیا جسے ختم کروانے پی پی پی حکومت کے وزرا امتیاز شیخ اور سعید غنی وغیرہ دھرنے کی جگہ پر پہنچے۔ بیس گھنٹے بعد ان کی ایف آئی آر داخل کی گئی اور مبینہ ملزمان جام اویس ایم پی اے نے گرفتاری دی جب کہ اس سے قبل اس کے دو گارڈز گرفتار کیے گئے جو ورثا نے کہا کہ اصل قاتل نہیں۔ جام اویس گہرام جوکھیو ایم پی اے، اس کا بھائی عبدالکریم ایم این اے اور ان کا خاص آدمی نیاز سالار جوکھیو و دیگر ہیں۔
سندھ بھر میں اور سوشل میڈیا پر ناظم جوکھیو کے قتل پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ سندھ بھر میں عرب شکاریوں کے خلاف احتجاج پایا جاتا ہے۔ مقتول ناظم جوکھیو کو سندھ اور ملک کا پہلا ‘ماحولیاتی شہید’ قرار دیا جا رہا ہے جس نے پردیسی پرندوں کی حفاظت میں عرب شکاریوں کی مزاحمت کی۔ “وہ سردار ہیں، طاقتور ہیں اور ہم عوام ہیں، غریب ہیں۔ سرداروں کے پاس پیسہ ہے لیکن ہم عوام کے پاس آواز ہے”۔ یہ الفاظ ہیں مقتول ناظم کی اہلیہ کے جو اب اپنے شوہر کے قتل میں انصاف کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
سندھ میں عربوں کی شکار گاہیں
یہ محض کراچی اور ٹھٹھہ کے درمیان کارو جبل نامی علاقہ نہیں جہاں مقامی طاقتور وڈیرے خلیج و دیگر عرب ممالک سے آنے والے شاہی خاندانوں کے شکار کے دورے کے دوران خودکار میزبان بنے ہوئے ہیں بلکہ ایسے موسم میں نومبر تا جنوری، فروری سندھ عربوں کی شکارگاہ یا جنگل میں منگل کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ سندھ کی کچی پکی سڑکیں ہوں کہ پہاڑی، صحرائی، میدانی علاقے، ان پر رینج روورز، لینڈ روورز، ،لینڈ کروزر، لیکسس، پراڈوز، فور وہیلرز، دبئی، اومان، راس الخیمہ، العین، عین القیون، ابوظہبی، قطر کی نمبر پلیٹوں سے دوڑ رہی ہوتی ہیں۔ شکار کا سیشن ختم ہونے کے بعد بھی ایسی گاڑیاں مستقل طور سندھ کی سڑکوں، اور کچے پکے علاقوں کے منظرنامے کا حصہ ہیں کہ ‘خدمات’ اور شکار کے صلے میں ایسی گاڑیاں سندھ کے کئی وڈیروں، پیروں، میروں، سرداروں کو اپنے ‘عربی مہمانوں’ کی طرف سے تحفے میں دی گئی ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خلیجی و دیگر عرب ممالک کی ایسی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کے کئی وڈیرے اور سردار مالکان نہیں، کاغذات میں ڈرائیور یا ‘کیئر ٹیکر’، ‘سپروائزر’ دکھائے گئے ہوتے ہیں۔
شمالی سندھ میں گھوٹکی اور شہدادکوٹ قمبر، تھرپارکر، ٹھٹھہ، دادو ضلع کا جوہی، جامشورو، تھانو بولا خان، کرچات، یہ علاقے انتہائی اہم طور پر عرب حکمرانوں، چھوٹے بڑے شیخوں اور شاہی خاندان کے ‘ہنٹنگ ٹرپس’ کی میزبانی کے مرکز ہوا کرتے ہیں۔ بقول صحافی اور میرے دوست وسعت اللہ خان کے، “شکار کے سیزن میں یہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں لگتے”۔
گھوٹکی سے لے کر رحیم یار خان کے صحرا تک مہر سرداروں کی شکار گاہیں ہیں جہاں یہ بادشاہ و شیوخ اور ان کے ‘وانٹھے’ (سندھی میں شکار کے حواری کو وانٹھا کہتے ہیں) جن میں ان کے لوگوں کے ساتھ اکثر جنوبی بھارت کے ملباری ہوا کرتے ہیں، مہر سرداروں کے ‘مہمان’ ہوا کرتے ہیں۔
رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کا محل گلمرگ کہلاتا ہے اور وہاں ایک وسیع جیٹ طیارے اترنے کا ایئر سٹرپ بھی جدید سہولیات کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ شیخ زید کے دو محل ایک سندھ میں ٹھٹھہ ضلع میں میرپور سا کرو کے قریب اور دوسرا سپر ہائی وے کے قریب کاٹھور کے علاقے میں واقع ہے۔ کئی سال قبل میں نے میرپور سا کرو والے محل کی سیر کی تھی جہاں ایک بڑا تالاب بھی تھا جہاں مجھے بتایا گیا تھا کہ مائگرنٹ پرندے اترتے ہیں۔ جب میں نے اب کچھ روز قبل بذریعہ فون معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ گذشتہ آٹھ سال سے وہاں شیخ شکار کھیلنے نہیں آئے۔
گھوٹکی کے مہر سرداروں کے عربوں سے تعلقات شکار کی وجہ سے بنے
گھوٹکی کے مہر سرداروں کے دبئی کے حکمران خاندان سے بہت ہی پرانے اور قریبی تعلقات ہیں۔ کئی شیخ تو ان کی صحرائی شکار گاہوں میں لمبی مدت آ کر قیام کرتے رہے ہیں۔ ان سرداروں کے پاس ایک رائل ٹینٹ ہائوس یا خیمہ گاہ ہے جو اسکندر مرزا سے لے کر نواز شریف تک سب حکمران استعمال کرتے رہے ہیں جب کہ یہ ٹینٹ سعودی عرب اور امارات کے حکمرانوں کی پسندید خیمہ گاہ رہی ہے۔
یہ مہر خاندان کے بڑے سردار علی گوہر سینیئر (جس کا ذکر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ‘اگر میں قتل کیا گیا’ میں بھی کیا ہے) تھے جنہوں نے 1950 کے عشرے کے اوائل میں جب ابھی عربوں کے پاس تیل نہیں نکلا تھا تعلقات استوار کیے تھے جب وہ حج ادا کرنے گئے تھے۔ وہ تب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مرسیڈیز بس لے کر گئے تھے اور اپنے ساتھ لائے اس خیمہ گاہ میں قیام کیا تھا۔ 1991 میں جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو سندھ میں ہاریوں میں زمینیں تقسیم کرنے آئے تھے۔ انہوں نے بھی ایک رات مٹیاری کے جنگل میں مہر سرداروں سے مستعار لیے اس شاہی خیمہ گاہ میں گزاری تھی جہاں ان کے مرغوب کدو کے حلوے کی دیگیں بھی پکائی گئی تھیں۔
حکومتیں نواز شریف کی ہوں کہ بینظیر بھٹو یا زرداری کی، عمران خان ہوں یا فوجی، شاہی عرب شکاریوں کی تابعداری اور خدمتگذاری میں سب بازی لی جانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بینظیر کے پہلے دور حکومت میں ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران مہر سرداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے گھوٹکی کے صحرا میں اس وقت شکار کے لئے خیمہ زن دبئی کے حکمران سے سفارش کروائی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکموت میں خارجہ پالیسی بذریعہ شکار
لیکن یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس سے عربوں اور غیر عرب ممالک کے تیل کی دولت کو سفارتی ہتھیار بنانے کی طاقت کی ترغیب منسوب تو کی جاتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے شکار کو بھی عربوں سے سفارتی تعلقات کی چابی بنایا۔ یہ تب یونائیٹڈ بنک کے آغا حسن عابدی تھے جن کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو نے خلیج کی ریاستوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان و دیگر شاہان و شیوخ کو شکار کے موسم میں شاہی مہمان داری کو مستقل مدعو کرتے ہوئے اپنے اور ملکی تعلقات کو بہتر بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی دلچسپی سے ان کی حکومت نے شیخ زید بن سلطان النہیان کو رحیم یار خان کے قریب صحرائی علاقے میں محل اور ایک وسیع ایئر سٹرپ کی تعمیر کی اجازت دی۔ اس کے جواب میں رحیم یار خان اور لاڑکانہ میں شیخ زید بن سلطان میٹرنٹی اسپتال اور کالونی تعمیر کی گئی۔ ساتھ ہی شیخ زید بن سلطان النہیان کے ‘شوقِ شکاریات’ پر بھی کافی لطیفے اور جگتیں بن کر عوام میں مشہور ہوئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کے شیخ زید بن سلطان النہیان کے ساتھ تعلقات اتنے گہرے اور ذاتی بنے کہ اب یہ کھلا راز ہے کہ ضیاالحق کے خلاف بھٹو کے بیٹوں کی شروع کی گئی عسکریت پسند یا متشدد تنظیم الذوالفقار قائم کرتے وقت شیخ زید نے بھٹو برادران کی مالی مدد بھی کی۔ نیز بینظیر بھٹو پر ان کی سیاسی سوانح عمری ‘گڈ بائی شہزادی: اے پولیٹیکل بایو گرافی آف بینظیر بھٹو’ میں ان کے دیرینہ دوست اور ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے والے صحافی شیام بھاٹیا نے لکھا ہے کہ دبئی میں بینظیر بھٹو کو گھر اور ان کے قیام و رہائش کا تمام خرچہ جات شیخ زید بن سلطان کی خواہش کے مطابق ان کی حکومت امارات برداشت کرتی تھی۔ شاید اب بھی کرتی ہو۔
ضیاالحق کے آمرانہ دور میں بھی دیگر خلیجی ریاستوں و عرب ممالک کے حکمران شاہ و شیوخ اپنے شاہی شکاری دوروں پر آتے رہے لیکن شیخ زید بن سلطان کی ضیا فوجی آمرانہ حکومت کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہی رہی کیونکہ ضیاالحق نے شیخ زید کی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف ان کی جان بخشی کی درخواست کے باوجود اس وعدے کے ساتھ کہ وہ غور کریں گے، بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کروایا۔ اور پھر بہت بڑی تعداد میں پاکستانی امارات سمیت خلیجی ممالک سے واپس ہوئے تھے۔
1980 کی ہی دہائی میں ٹھٹھہ کے پاس مبینہ طور پر دو کمسن بچیاں آمی اور پھاپی (آمنہ اور فاطمہ) عرب شکاریوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کے بعد ہلاک ہو گئیں جس پر سندھ بھر میں ایسا ہی شدید احتجاج ہوا تھا جو اب حالیہ دنوں میں ناظم جوکھیو کے سرداروں اور حکمران پی پی پی ایم پی اے، ایم این اے اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں قتل ہونے پر ہو رہا ہے۔ نہ فقط یہ بلکہ آمی اور پھاپی کا سانحہ اب سندھی شاعری کا حصہ ہے کہ اس پر مشہور سندھی شاعر آکاش انصاری نے ایک نظم ‘پیغمبر اسلامﷺ کے حضور آمی اور پھاپی کی فریاد’ لکھی تھی۔
بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے عرب شیخوں سے تعلقات
بینظیر بھٹو اپنے ادوار حکومت میں بچوں سمیت رحیم یار خان دبئی کے حکمران سے ملاقات کرنے ان کے محل گلمرگ جاتی رہی تھیں۔ جب کہ نواز شریف ادوار حکومت میں بہاولپور، بہاولنگر کے قریب لال سو نہارا پارک سمیت کئی علاقے دبئی، قطر، سعودی عرب سمیت کئی چھوٹی بڑی خلیجی ریاستوں و دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو شکار کے لئے الاٹ کی گئی تھیں۔ عرب شاہی شکاری اور ان کے ایسے ‘خدمتگار’ ان ممالک و ریاستوں کی نمبر پلیٹوں کی گاڑیاں اور عربی جبوں میں لوگ رحیم یار خان، لاہور، ملتان، اسلام آباد جیسے شہروں میں عام دیکھے جانے لگے تھے۔ لیکن یہ نواز شریف کی حکومتوں میں ان کے دست راست اور حزب مخالف کے لوگوں کے لئے بلکہ خود اپنی ہی پارٹی کے بھی کئی لوگوں کے لئے ایک بھیانک خواب بنے سیف الرحمان ہی تھے جنہوں نے ایک معمولی فارمیسی کے مالک ہونے سے لے کر قطر کے حکمران خاندان تک خاص رسائی اور تعلقات قائم کیے۔ یہی قطر کے شاہی خاندان سے تعلقات تھے کہ جن کی بنا پر نواز شریف کے مقدمے میں قطری شہزادے کا خط بھیجا گیا تھا۔
سیف الرحمان اور خود مسلم لیگ ن کے لوگوں میں سیف الرحمان کی کتنی دہشت تھی، اس کی ایک جھلک امریکہ میں شکاگو کی اپیلیٹ عدالت سکستھ سرکٹ کے سامنے ایک مسلم لیگ نون کے کارکن کی سیاسی پناہ کی درخواست میں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ ایک اور بادشاہی کا قصہ ہے، پھر سہی۔
بہرحال یہ بھی وزیر اعظم نواز شریف ہی تھے جنہوں نے فون کر کے سندھ کے ایک سردار نادر مگسی سے کہا تھا کہ وہ اپنے تعلق دار لال چانڈیو کو سپریم کورٹ میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرنے سے منع کرے۔
لال چانڈیو کی سندھ ہائی کورٹ میں درخواست
لال چانڈیو نے 2014 میں عربوں کے ہاتھوں سندھ میں تلور سمیت نایاب اور خطرے تلے آئے پرندوں اور جانوروں کے غیر ملکی اور ملکی شکاریوں کے شکار کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی اور اسی سال سندھ ہائی کورٹ نے سندھ میں تلور سمیت ایسے پرندوں اور جانوروں کے شکار پر مکمل پابندی کا حکم دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایسے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی طرف سے وزارت خارجہ اور تینوں صوبائی حکومتیں (سوائے خیبر پختونخوا حکومت کے) سپریم کورٹ میں اپیل میں گئی تھیں لیکن اس اپیل کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے تشکیل شدہ ڈبل بنچ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ لیکن محکمہ خارجہ نے نظرثانی اپیل داخل کی تھی جس میں خارجہ تعلقات کا عذر پیش کیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ کی طرف سے اپنے فیصلے کی نظرثانی کی درخواست تین ججوں میں سے دو کی اکثریت نے سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے کو معطل کرتے ہوئے لیکن ایک محدود اور مخصوص تعداد کی شرط سے شکار کی اجازت دی تھی۔ اس فیصلے کے مطابق محض ایک سو بیس تک تلور مارنے کی اجازت تھی لیکن ان شاہی عرب شکاریوں نے جن میں سعودی عرب، دبئی اور قطر کے حکمران اور اعلی حکام تھے نے آنیوالے دنوں میں 2100 تک تلور شکار کیے۔
مجھے سندھ ہائی کورٹ میں غیر ملکیوں کے شکار کے خلاف پٹیشر لال چانڈیو نے ٹیلی فون پر بتایا کہ اس نے اپنی پٹیشن میں وفاقی اور سندھ حکومتوں اور اس کے وائلڈ لائف محکمے کے علاوہ چانڈیو سرداران، دبئی کے شیخ محمد بن زائد النہیان اور پاکستان میں ان کے معاملات کو دیکھنے والوں ناصر عبداللہ لوتا، شہباز خان، اور محمد عبدالخالق الخوری سمیت خلیجی ریاستوں کو بھی مدعہ علیہان بنایا تھا۔ جس سال سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا اسی سال سندھ صوبے میں عرب شکاری نہیں آئے تھے۔
لال چانڈیو نے ایک سوال کے جواب میں مجھے بتایا کہ چانڈیو سرداروں کی جاگیر غیبی چانڈیو میں ان کی بھی آبائی زمین ہے جہاں شکار کے موسم میں ان کی اپنی ہی زمین پر انہیں اور ان کے مزارعوں کو سردار اور ان کے لوگ جانے نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پٹیشن داخل کرنے کے بعد انہیں سندھ میں حکمران پی پی پی نے ہر طرح سے پٹیشن کی پیروی نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا، ہراساں بھی کیا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال اور فریال تالپور نے بھی دبائو ڈالا۔ ان کے سرکاری ملازم بھائی پر بدعنوانی کے مقدمات دائر کیے گئے۔ لیکن وہ سندھ ہائی کورٹ میں اپنے کیس کی پیروی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اگرچہ لال خان نے سپریم کورٹ میں اپیل کی پیروی نہیں کی لیکن سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اپیل دائر نہ کرنے کی وجہ لال خان مالی مشکلات بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “جہاں ایک طرف حکومت اور سرداران کی طرف سے فاروق ایچ نائیک، لطیف کھوسہ اور عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے وکلا ہوں اور دوسری طرف میرے پاس اپنے وکلا کو فیس کے پچاس لاکھ روپے ادا کرنے کو نہیں تھے۔”
لیکن 1990 کی دہائی کے وسط میں یہ سندھ میں صحافی اسحاق منگریو اور غیر سرکاری تنظیم سکوپ کے تنویر عارف پہلے لوگ تھے جنہوں نے تلور کے شکار کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ اور ان دونوں کی مہم پھر ملک گیر مہم بن گئی تھی۔ مجھے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک شکاری دوست نے بتایا کہ 1993 میں خلیج سے عین القیوم سے کئی عرب شاہی مہمان کسی دوست کی معرفت ان کے پاس آئے تھے جن کو انکی 20 سے زائد گاڑیوں کے جلوس میں وہ شکار کروانے جوہی کے علاقے میں لے گئے تھے۔ اس علاقے میں ڈسٹرکٹ گیم آفیسر سندھ کے اس وقت وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ کا قریبی مہدی شاہ تھا۔ جس نے شروع میں تو عرب شکاریوں کے ساتھ سختی کی، انہیں گرفتاری کی دھمکی بھی دی لیکن پھر ان کو شکار کی اجازت دینے کے لئے دس لاکھ روپے رشوت بھی مانگی۔ لیکن عرب شکاریوں نے رشوت دینے سے انکار کیا اور وہ چانڈیو سرداروں کی طرف لوٹ گئے۔ شاید یہ چانڈیو سردار۔ ان کی طرف آنے والے پہلے عرب تھے۔
سیخ عبداللہ ناصر لوتا، اور پاکستان کے طاقتور لوگ
شیخ عبداللہ ناصر لوتا ملک اور صوبے میں دبئی کے حکمرانوں کے معاون خاص اور مفادات کے نگہبان کے طور پر نیا نام نہیں۔ شیخ لوتا کے صوبے اور ملک کی تمام طاقتور شخصیات سے تعلقات اور ان پر اکرامات و انعامات کی بارشیں رہی ہیں۔ جام صادق علی جب سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو شیخ ناصر لوتا نے ان کو شکار کے لئے ٹھٹھہ ضلع الاٹ کرنے پر سکس ڈور یا چھ دروازوں والی مرکیوری کار تحفہ دی تھی جو جام صادق علی اپنی ذاتی و سرکاری مصروفیات میں سفر کے لئے استعمال کرتے تھے۔ شدید علالت کے وقت اسپتال میں ان کے ساتھ موجود رہنے والوں میں سے ایک باخبر کا کہنا ہے کہ جب جام صادق علی بستر مرگ پر تھے تو ان کی عیادت کو مرحوم پیر پگاڑو آئے تھے اور مذکورہ مرکیوری کار کی چابی ان سے لے کر گئے تھے۔ پھر غالباً وہ کار پیر پگاڑو کے پاس ہی رہی۔
جام صادق علی نے تھرپارکر ضلع قطر کے 90 سالہ شہزادے شیخ ناصر کو شکار کے لئے الاٹ کر دیا تھا جہاں اس کا کیمپ نگر پارکر اور سلام کوٹ کے درمیان جنگل میں منگل لگتا تھا۔ ہم ایک دن سٹوری کرنے ان کے کیمپ پر گئے تھے جہاں ان کے ملازمین جو زیادہ تر جنوبی بھارت کے ملباری تھے سے ملاقات ہوئی تھی، ان دنوں تھر میں قحط سالی تھی اور شیخ ناصر کے ملباری ملازمین نے بتایا تھا کہ علاقے میں پانی، اناج اور جانوروں کو چارہ شیخ کی طرف سے مہیا کیا جا رہا ہے۔ حلانکہ مقامیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ شیخ کے کیمپ پر کسی بھی مقامی کو جانے کی اجازت نہیں۔
اب تھرپارکر ضلع میں اس سال شکار کا پرمٹ دبئی کو دیا گیا ہے جہاں دبئی کے وزیر دفاع اترے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ روز قبل سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی بھی ان سے ملنے آئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ تھرپارکر ضلع میں ننگر پارکر کے قریب موکھئی، رن آف کچھ کے ساتھ لنگ، ڈیپلو کے پاس جت ترائی جیسے علاقے شکار کے لئے اب متحدہ عرب امارات کے وزیر دفاع کو دیے گئے ہیں۔
مقامی وڈیرے اور بااثر عرب شاہی شکاریوں سے اپنے تعلقات اپنی سیاسی طاقت قائم رکھنے اور برے وقتوں کے لئے کس طرح استعمال کرتے ہیں؟
غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ نیب کو مقدمات میں مطلوب جام معشوق علی رحیم یار خان سے دبئی کے حکمران کے ذاتی طیارے میں ملک سے فرار ہوئے تھے۔ جب کہ مشرف فوجی حکومت میں دبئی فرار ہو جانے والے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کی بیٹی کی شادی خلیج کے کن شیخوں کے خاندان میں ہوئی تھی (جس کی اب طلاق ہو چکی ہے)۔ یہ لیاقت جتوئی کے خلیجی حکمرانوں سے تعلقات تھے کہ نہ فقط وہ پرویز مشرف کی ہی حکومت میں نیب کو مطلوب ہونے کے باوجود ملک واپس آئے بلکہ چودھری شجاعت کی معرفت پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر بھی بنا دیے گئے۔
اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تلور سمیت نایاب پرندوں اور جانوروں کا محدود شکار کرنا ممکن ہے اور جس علاقے کا وزارت خارجہ پرمٹ جاری کرے اسی علاقے تک شکار کو محدود رکھنا ضروری ہے لیکن شکار کے ہر موسم میں ہر سال پرمٹ کی محدود تعداد سے سو گنا زیادہ شکار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لال چانڈیو کی پٹیشن میں گنوائے جانے والے تلور، مرغابیاں، بارہ سنگھے، مارخور، مگر مچھ وغیرہ بھی شامل تھے۔ لال خان کا کہنا ہے کہ صرف تلور نہیں مذکورہ دیگر چرند پرند کی نسلیں بھی نابود کی جاتی ہیں۔ شکار تو تلور کا ہوتا ہے لیکن ایک باخبر مقامی شکاری کے مطابق راستے میں آتے جاتے یہ عرب شکاری جنگلی بلے، لومڑ اور گیدڑ بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔ وہ کہتے ہیں کہ “صحرا میں پائی جانیوالے ہر چیز حلال ہے۔ اور فریزر میں محفوظ رکھنے کے قابل ہے”۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ خلیجی ریاستیں جو اپنے ملکوں میں تو انٹرنیشنل کنزرویشن یونین (آئی یو سی این) یا ورلڈ وائیڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی طرف سے زیر خطرہ اور تیزی سے ختم ہونے والی نسلوں کے پرندے تلور کی افزائش اور تحفظ کے لئے فنڈز بھی مہیا کرتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اسے بے دریغ شکار کر رہے ہیں۔ لال خان چانڈیو کا کہنا ہے کہ دھابیجی جس کے قریب نوجوان سماجی کارکن ناظم جوکھیو کا قتل ہوا ہے وہاں تو غیر ملکی یا ملکی شکاریوں کو شکار کی اجازت بھی نہیں تھی۔ مقامیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے کہ نوجوان کی پردیسی پرندوں کے دفاع میں اس کی مزاحمت پر عربی نمبر پلیٹ والی گاڑی سے اتر کر اس کا موبائل فون چھیننے، تشدد کرنے والا شخص ایرانی النسل عارف زرمانی ہے جو خلیجی شیخوں کا اہم کارندہ ہے۔
ناظم جوکھیو اب وڈیرہ شاہی کے خلاف علامت بن چکا ہے اور اس کی بیوہ شیریں جوکھیو کا عہد ہے کہ ناظم کے قاتلوں کو عدالتی کٹہرے میں کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ سندھ میں ام رباب چانڈیو کے بعد شیریں جوکھیو دوسری خاتون ہے جو طاقتور سرداروں کے خلاف سینہ سپر ہو گئی ہے۔ اب ڈاکٹروں کی طرف سے بھی ناظم جوکھیو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ کر عام ہو چکی ہے کہ کس طرح ناظم جوکھیو پر بے دریغ تشدد کر کے اسے ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس نے جوکھیو سرداروں کی رہائشگاہ پر چھاپہ مار کر خون میں آلود رضائی، آہنی سریے اور ڈنڈے بھی برآمد کر لیے ہیں۔
جوکھیو سردار کون ہیں؟
ناظم جوکھیو کے قتل کے مبینہ جوابداران جوکھیو سردار جو پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالکریم اور ایم پی اے اویس گہرام جوکھیو سردار ہیں، اصل میں جوکھیو قبیلے کی سالار شاخ سے ہیں اور یہ جام بجار کی اولاد ہیں۔ ان کے پردادے کا دادا جام بجار اصل میں بجو نام کا چور تھا جو اپنے پاؤں بڑے ہونے کی سسب پکڑا جاتا تھا۔ سندھ اور ہند پر تاریخ نویس اور مصنف ابوبکر شیخ لکھتے ہیں کہ سندھ پر غلام شاہ کلہوڑو دور حکومت (1756 تا 1772) میں غلام شاہ ٹھٹھہ پر ارغون نواب کو حکم دیا کہ میرپور ساکرو اور بوہارا کے درمیان اپنے پرگنہ پر راج کرنے والے ان (کلہوڑو) کے دشمن راجہ رانو ارجن دھاراجا کو قتل کیا جائے۔ جو کام ارغون نواب نے بجار پر رکھا۔ راجہ ارجن دھاراجو کو قتل کرنے کے صلے میں بجار کو اپنے قبیلے کی سرداری دی، جام کا لقب دیا گیا اور اب یہ بجو چور سے جام بجار بن گیا۔ ناظم جوکھیو کے قتل کے حوالے سے نام لیے جانے والے ان جوکھیو سرداروں کے والد کا نام بھی جام بجار تھا جن کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا جو اس بجو کا پڑ پوتا تھا۔ ان سرداروں کے والد جام بجار کی دو شادیاں تھیں۔ یہ دونوں سردار پہلی بیوی میں سے ہیں جو سردار عطااللہ مینگل کی بیٹی تھیں۔ جب کہ دوسری بیوی ان کی تھائی لینڈ سے ہے۔ سندھ میں کئی سرداروں کا ننیہال بلوچستان سے ہے۔
ناظم جوکھیو کے قتل سے بھی کئی سال قبل جوکھیو قبیلے کے ایک اور معزز تاج محمد جوکھیو کے قتل میں بھی انہی سرداروں کا مبینہ ہاتھ بتایا گیا تھا لیکن اس کی بھی کوئی دادرسی نہیں ہوئی تھی۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی پرندوں کے شکاریوں کو بددعائیں
اکتوبر کے ابتدائی ایام سندھ اور ملک کے دیگر حصوں کے میدانی، صحرائی علاقوں اور پانیوں پر پردیسی یا نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی اڑانوں کے پڑاؤ کے ہوتے ہیں جو دور دراز وسطی ایشیائی ملکوں کے سرد موسموں سے اُڑتے بھاگتے ہمارے جیسے دیس کے مہمان ہوا کرتے ہیں۔ سندھ کے عظیم صوفی اور شاعر شاہ عبداللطیف نے اپنی شاعری میں ان پرندوں کے حسن، قسمت و خوبیوں کو سراہا ہے جب کہ شکاریوں کو جا جا بد دعائیں دی ہیں۔ ان کے شاہ جو رسالو کا ایک پورا سر (باب) سندھ کے پانیوں اور ان پر اترتے ہوئے پرندوں کے بارے میں ہے۔
لیکن نومبر سے جنوری ایسے مہینے ہیں جن میں شکار کے لئے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے شاہ و شیوخ کے طیارے ان کے محلوں کے ذاتی ایئر سٹرپ پر یا ملکی ایئر بیسز پر لینڈ کرتے ہیں۔ سائیبریا اور وسطی ایشیا کے ممالک سے جیسے جیسے پردیسی پرندے یا مائیگرنٹ برڈز سندھ کے پانیوں، صحرائوں اور میدانی علاقوں پر پڑائو کرتے ہیں ویسے ویسے ان کے پیچھے عرب شاہی شکاریوں کے طیارے بھی اترتے ہیں۔
سندھ میں سردار، وڈیرے، میر اور پیر، ان کے علاقے ان شاہی مہمانوں کے شکاری دوروں و قیام کی ‘مہمانداری’ میں مستقل طور خود تفویض کروائے ہوتے ہیں۔
گھوٹکی ضلع میں مہر سردار، قمبر شہداد کوٹ چانڈیو سردار، جوہی دادو میں لغاری، خیرپور سانگھڑ اضلاع پیر پگاڑو، ٹنڈو محمد خان ضلع میں سرکاری زمین کے پانچ سو ایکڑ پر زرداری کے پیٹارو کے ساتھی سابق ایم پی اے اور وزیر قبول محمد شاہ (جس نے sanctuary قائم کی ہوئی ہے جہاں ملکی و غیر ملکی شکاری شکار کرتے ہیں۔ سابق ایم پی اے قبول محمد شاہ کچھ عرصہ قبل سندھی اخبار کاوش کے مالک قاضی ایوب سے ایک جھگڑے میں مبینہ طور قتل ہونے والے نوجوان فتح محمد جکھرانی کے قتل کے الزام میں کافی عرصہ تک جیل میں رہ چکے ہیں)۔ جب کہ دادو اور جامشورو اضلاع میں ملک اسد سکندر اور جھل مگسی بلوچستان میں عامر مگسی اور تھرپارکر و بدین میں ارباب ان شاہی شکاریوں کے ‘میزبان’ کے فرائض ادا کرتے ہیں۔
جب نواب اکبر بگٹی نے عرب شکاریوں کو بھیڑوں کے ساتھ باندھ دیا
سندھ میں کیلوں کے بادشاہ کہلانے والے ایک زمیندار رئیس حیات رند اور بلوچستان میں سردار اکبر بگٹی دو ایسے تھے جو اپنے علاقوں میں تلور کا شکار نہیں کرنے دیتے تھے۔ ایک دفعہ تو اکبر بگٹی کے علاقے میں شکار پر آئے ہوئے عرب شکاریوں کو ہرن مارنے پر اپنے لوگوں سے پکڑوا کر ان کو بھیڑوں کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ ان شاہی شکاریوں کو رہائی تب ملی جب وفاقی حکومت نے نواب بگٹی کے ساتھ اس پر بات چیت کی تھی۔ اور ہرن کے بدلے ہرن مہیا کیے تھے۔ حیات رند تو اپنے علاقے میں فائر کر کے عرب شکاریوں کو بھگا دیتا تھا۔
عرب شاہی شکاریوں کی آمد سے قبل پردیسی پرندوں کی اڑانوں کے پڑائو پر ان شاہی شکار والے علاقوں میں وڈیروں سرداروں کے مقامی آدمی سرداروں وڈیروں کی اپنے علاقے کے لوگوں کی زمینوں پر بطور مسلح ‘راکھے’ (رکھوالے) مقرر کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی اور ان پرندوں کا شکار نہ کر سکے۔ ایک شاہی محل کی غیر قدرتی جھیل پر تو ایک دفعہ پرندوں کی ٹانگیں باندھ کر شیخ کو شکار کروایا گیا تھا۔ یہ ‘راکھے’ مقامی لوگوں اور پڑوسیوں کی زندگی اجیرن بناتے ہیں۔ راکھے لوگوں کو نہ تو ان کی اپنی زمینوں پر آنے دیتے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنے مویشی چرانے دیتے ہیں۔
میں نے تھر میں اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ ان غیر ملکی ‘وی آئی پیز’ کے ہاتھوں پردیسی پرندوں اور خطرے تلے آئے دیگر چرند و پرند کے شکار کے میزبان کون ہوتے ہیں تو اس نے فوری جواب دیا ‘سندھ وائلڈ لائف محکمہ’۔ یہ بھی یاد رہے کہ ناظم جوکھیو کے قتل کے کیس میں اب گرفتار حکمران پی پی پی ایم پی اے اویس گہرام جوکھیو بھی سندھ اسمبلی میں جنگلی جیون یا وائلڈ لائف و جنگلات کے محکمہ جات پر سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
اس کے عوض ان شاہی میزبان وڈیروں، سرداروں، پیروں کو ملتا کیا ہے؟
ایک تو اس طرح ان کا ان ریاستوں اور ممالک میں تھوڑا بہت تعلق بنتا ہے اور دوسرا ان مین سے کئی کو رینج روورز، لینڈ روورز، لینڈ کروزر جیسی گاڑیاں ان ممالک کی نمبر پلیٹوں کے ساتھ ڈرائیو کرنے کو ملتی ہیں۔ اندر کی معلومات رکھنے والے کہتے ہیں کہ ان گاڑیوں کے کاغذات پر اصلی مالکان اب بھی شاہی شکاری عرب ہوتے ہیں لیکن بطور ان کے ڈرائیورز یا شوفر ان میں سے کئی وڈیروں، سرداروں اور ان کے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں کے نام ہوتے ہیں۔ یہ سردار وڈیرے ان سرکاری کاغذات پر ان غیر ملکی شاہی وی وی آئی پیز کے مقامی محلوں اور شکار کے انتظامات کے بطور ‘سپروائزر’ درج ہوئے ہوتے ہیں۔
سال 2018 میں قطر سے غیر قانونی طور پر درآمد شدہ 22 بڑی SUV گاڑیاں پاکستانی کسٹمز نے پکڑی تھیں جو لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں سیف الرحمان کے پلاٹ، گوداموں اور بند فیکٹری سے پکڑی گئی تھیں۔ عرب نیوز سے اسلام آباد میں قطر کے سفارتخانے نے اس کی تصدیق کی تھی کہ مذکورہ گاڑیاں قطر کے سابق وزیر اعظم شیخ حماد بن جاسم جابر الثانی کی ملکیت تھیں جو شکار کے قصد سے لائی گئی تھیں۔
ان شاہی شکاروں اور وی آئی پیز کے ہمراہ جانے والے انتہائی باخبر ذرائع (جن کے نام ان کی سلامتی اور پرائویسی کی شرط پر گمنام رکھے جا رہے ہیں) نے مجھے بذریعہ فون اپنےانٹرویوز میں بتایا کہ سب سے بڑا شوق ان سرداروں، وڈیروں، میروں، پیروں کا یہ ہوتا ہے کہ دبئی میں ہر سال ہونے والے گن شو میں ان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ بندوقیں تو اپنے ہی پیسوں سے خریدتے ہیں لیکن ایک سے زائد ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وہ بندوقیں ان کے لئے شیوخ کے ذاتی طیاروں اور سامان میں آتی ہیں جس کی کوئی چیکنگ وغیرہ نہیں ہوتی۔ پھر وہ بندوقیں بیچی بھی جاتی ہیں۔ اس وقت ملتان ایسی بندوقوں کی خرید و فروخت کا بڑا مرکز ہے۔ جب کہ کچھ ذرائع نے مجھے بتایا کہ دبنگ سرداروں وڈیروں کو ان کی میزبانی کے عوض شاہ و شیوخ بندوقیں تحفوں میں بھی دیتے ہیں۔
کیا تلور کے شکار میں کوئی جنسی عیش و عشرت کے عوامل بھی شامل ہیں؟
اگرچہ افواہیں یہ ہیں کہ شاہی شکار کے لوازمات میں جسمانی یا جنسی عیش و عشرت بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اس کی کوئی پختہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ البتہ باخبر حلقے اور کچھ تحقیقی صحافی تلور کے گوشت کو شاہی شکاریوں کی جنسی اشتہا بڑھانے کا ذریعہ بتاتے ہیں۔ کئی برس پہلے مشہور امریکی صحافی میری این وویور تلور کے شکار پر شیوخ کے ساتھ سندھ، بلوچستان گئی تھیں اور انہوں نے ایک عشائیے میں تلور کا گوشت بھی چکھا تھا۔ ہفت روزہ نیویارکر میں چھپنے والی اپنی اس زبردست سٹوری ‘Hunting with the Sheikhs’ (شیخوں کے ساتھ شکار) میں میری این ویور نے بتایا تھا کہ ‘تلور کا گوشت بہت بے مزہ تھا’۔ میری این ویور نے اپنی اسی سٹوری میں یہ بھی بتایا تھا کہ تلور کے شکار میں کام کرنے والے پرندے عقاب کی ٹانگ میں شیخ شکاری ایک طرح کا بیٹری پر چلنے والا آلہ باندھتے ہیں جس کا کنکشن ان کی شکاری گاڑیوں مین نصب راڈار سسٹم سے ہوتا ہے جو انتہائی تیز رفتار اڑان والے تلور کا پتہ لگاتا ہے۔
تلور کا شکار ایک بہت بڑا بزنس بنا ہوا ہے۔ اور عقاب عرب شکاری ایک تعداد میں اصلی طور سپین سے درآمد بھی کرتے ہیں جو ان کی سندھ اور ملک میں لینڈ کرتے وقت ان کی کلائیوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ لیکن سندھ میں عقاب کے ذریعے شکار اور اس مقصد کے لئے اس کو سدھانے کا کام دریائے سندھ کے کنارے بہت قدیم ہے جس کا ذکر نہ فقط برطانوی مہم جو اور سکالر رچرڈ ایف برٹن نے اس پر پوری ایک کتاب لکھ کر کیا ہے بلکہ برٹن نے دریائے سندھ پر سندھی عقاب گردی اور اسے سدھانے کا فن بھی سیکھا تھا۔
اب اس دیسی نسل کے عقاب کی قیمت 50 لاکھ روپے پاکستانی ہے اور ابھی وہ پٹھا ہی ہوتا ہے تو اسے سدھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ مقامی ماہر عقاب باز ہوتے ہیں۔ پردیسی پرندوں کے پڑائو سے بہت پہلے ان عقابوں کو شکار کی مشقیں کروانا شروع کی جاتی ہیں۔ دنوان تک سدھایا جاتا ہے۔ یہ سدھانے نوالے مقامی ہوتے ہیں اور جنوبی بھارتی ملباری بھی۔
یہ بھی پڑھیے:
مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا ۔۔۔۔۔ جمعہ خان، مارک ٹلی اور ٹکا خان ۔۔۔حسن مجتبیٰ
سان فرانسسکو کی ایک رات، سان فرانسسکو کا ایک دن ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
لیاری کے ڈانز کی کہانی، دادل شیرل سے لیکر عزیر بلوچ تک (3) ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
لیاری کے ڈانز کی کہانی: شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک (1) ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ