عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایسے مُلک میں بستے ہیں جہاں خبر مرتی نہیں بلکہ اس قدر ہنگامہ خیزی ہے کہ دُنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ باقی ممالک میں ڈراموں کے سیزن ہوتے ہیں ہمارے ہاں سیاسی سیزن آتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنی مقبولیت ان سیاسی سیزنز کو ملتی ہے ڈرامائی سیزنز کو بھی نہیں مل پاتی۔
سیاسی سیزن سنہ 2002 سے انتخابات کی صورت ہر پانچ سال کے بعد باقاعدگی سے آ رہے ہیں۔ ان سے قبل مارشل لائی سیزن آتے تھے اور ہر دو تین سال کی بریک کے بعد دس، دس سال کے یہ سیزن لگاتار جاری رہتا۔ اس دوران بیرونی عکس بندی بلکہ فنڈنگ سے چلنے والے ہلچل سے بھرپور ان مارشل لائی سیزنز میں کبھی انڈیا اور کبھی افغانستان کا کردار بخوبی ڈال دیا جاتا۔
ان مارشل لائی سیزنز کے بیچ صرف بریک کے لیے جمہوری ڈرامہ رچایا جاتا، کبھی ایک جماعت کٹھ پُتلی بنتی کبھی دوسری جماعت۔ انہی باریوں ہی باریوں میں عوام جمہوریت کی ڈگڈگی پر رقص کرتے اور پھر ’آوے گا بھائی آوے گا‘ کے راگ میں ’جاوے ہی جاوے‘ ہوتا۔۔۔
پھر نئے جمہورے کی راہ ہموار ہوتی اور چور دروازے، غلام گردشوں میں نام نہاد جمہوریت کا سکرپٹ تیار ہوتا۔ کبھی جمہوریت کی بقا اور کبھی آئین کی سربلندی کے لیے مصالحت، مفاہمت اور شراکت پر رضامندی اوّلین ٹھہرتی۔
سیاسی سیزن کی شروعات، انتخابات کا موسم اور پھر الزامات، عدالتیں، لانگ مارچ، کبھی ملک قیوم کی ٹیپ، کبھی سپریم کورٹ پر حملہ، کبھی حکومت عدلیہ کشمکش، کبھی عدلیہ اور سیاسی حکومتوں کی مخاصمت اور پھر اس قلیل دورانیے کے سیاسی سیزن کو طویل بریک فوجی آمریتیں دیتیں۔
غرض عوام کی تفریح کا سامان ریاست فراہم کرتی رہتی اور ریاست کی تفریح کا سامان عوام بہم پہنچاتے رہتے۔
پھر سیاسی سیزن میں ایک نیا موڑ آیا۔ دو جماعتیں اُکتا گئیں اور کسی حد تک سمجھ گئیں۔۔۔ ہدایت کاروں کو خیال آیا کہ کیوں نہ تبدیلی سیزن شروع کیا جائے۔ اس سیزن کے تقریبا تمام کردار نئے تراشے گئے، کچھ پرانے کرداروں کو لانڈری میں دھو کر چمکایا گیا۔
معاشی اعشاریے بہتر ہوئے تو سوچا گیا کہ کیوں نہ اب نیا تجربہ کر ہی لیا جائے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے تبدیلی سیزن کو پوری طرح پبلسٹی دی، صادق اور امین کی اسناد، بہترین ساکھ کے پوسٹر چسپاں کیے گئے۔۔۔ مارکیٹ میں وہ پیشکش آئی کہ جس کی ’مثال‘ نہیں ملتی۔ تمام ادارے کردار بن گئے اور ان کرداروں میں ادارے ڈوب کر رہ گئے۔
اب نیا سیزن ہے، کبھی ویڈیو کبھی بیان حلفی جبکہ اداروں کی عزت کھڑکی توڑ رش میں داؤ پر لگی ہے۔
تبدیلی سیزن کے فلاپ ہونے کے بعد اب کسی نئے سیزن کی تلاش کی جائے گی، جمہوری ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش ہو گی، انصاف کے دروازوں سے نئی ڈیلیں نکلیں یا پارلیمان کے ایوانوں سے نئے کردار، عدد کام آئیں یا ناپ تول، عناد کی باری لگے یا مفاد کی، ایک بار پھر نئے سیزن کی تیاری ہے۔
کسی بھی نئے پراجیکٹ سیزن میں شراکت سے پہلے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کار سے یہ پوچھ لینا چاہیے کہ اب کی بار آیا کچھ جمہوریت اور کچھ عوام کو اس سیزن میں شامل کیا جائے گا اور اس سیاسی سیزن کی معیاد کتنی ہو گی اور معیار کیا؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر