وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اردگرد کوئی نہ کوئی ایسا کردار ضرور پایا جاتا ہے جس کا نشہ ہی ذرا سا آگے جھکتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کے ہر کارنامے کا کریڈٹ لینا ہوتا ہے۔
یہ گلی کس نے صاف کروائی؟ آپ کے بھائی نے۔ سکول میں بچے کا داخلہ نہیں ہو رہا؟ ارے آپ جاؤ تو سہی۔ بس پرنسپل کو بتا دینا کہ ندیم بھائی نے بھیجا ہے، آپ کے بچے کا فٹ سے داخلہ ہو جائے گا۔ کوئی مسئلہ ہو تو مس کال دے دینا۔ شکریہ کاہے کا بھائی۔ آپ کا ندیم بھائی ہے نا آپ کی خدمت کے لیے۔
ندیم میاں یہ سڑک تو بہت اچھی بن گئی؟ اچھی بنی نہیں آپ کے بھائی نے چیف منسٹر کے سر پر کھڑے ہو کر بنوائی ہے۔ وہ کہتا رہ گیا ندیم بھائی اس سال بجٹ نہیں اگلے سال بن جائے گی مگر میں بولا چیف صاحب جیسے بھی ہو یہ کام کروائیں۔ ورنہ آپ کے بھائی کی علاقے میں ناک کٹ جائے گی۔ تو دیکھیے کیسی کنچا سڑک بنوا کے دی ہے آپ کے بھائی نے۔ اب خوش نانی؟ بس اپنے ندیم بھائی کو دعاؤں میں مت بھولنا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ واقعی گلی کو پکا ندیم بھائی نے کروایا یا یہ گلی بھی دیگر گلیوں کے ساتھ بلدیاتی سطح پر پکی ہو گئی؟ بچے کا سکول میں داخلہ ندیم بھائی کی وجہ سے ہوا یا میرٹ پر ہی ہو گیا۔ علاقے میں نئی سڑک ندیم بھائی نے واقعی چیف منسٹر کے سر پر کھڑے ہو کر بنوائی یا صوبائی بجٹ میں پہلے سے اس بارے میں رقم مختص ہو چکی تھی۔
یہ وہ باریکیاں ہیں جنھیں پوچھ کر نہ تو ندیم بھائی کو مشکل میں ڈالنا چاہیے اور نہ ان کے اس دعوے کو چیلنج کرنا چاہیے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلوانے میں آپ کے بھائی نے پسِ پردہ کیا کردار ادا کیا اور اندرونِ سندھ دو قبیلوں کے درمیان برسوں پرانی دشمنی آپ کے بھائی کے ایک فون پر کیسے ختم ہو گئی۔
بس بغیر دلیل و حجت تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس گلی سے لے کے واشنگٹن تک جو بھی اچھا ہو رہا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ندیم بھائی ضرور ہیں۔ بس یار آپ کے ندیم بھائی کا لوگ مان رکھ لیتے ہیں ورنہ بھائی کی کیا حیثیت ہے۔
محلے والوں سے پتا کرو کہ آپ کے ندیم بھائی کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ تو جتنے منھ اتنی سرگوشیاں یا خاموشیاں۔ ویسے بھی ندیم بھائی کا اپنا گھر کیسے چلتا ہے۔ موٹرسائیکل کی ٹنکی ہمیشہ فل کیوں رہتی ہے۔ وہ باقاعدگی سے لش پش کھڑکٌراتے سفید شلوار قمیض کو کیسے مین ٹین کر لیتے ہیں۔ اگر ذاتی کاروبار ہے تو کس نوعیت کا ہے؟ کہیں نوکری کرتے ہیں تو کب آتے جاتے ہیں؟
اگر باپ دادا کی کسی جائیداد کے کرائے سے گزارہ چل رہا ہے تو ندیم بھائی نے اس بارے میں آج تک اپنے کسی لنگوٹیے کو بھی کبھی کیوں اعتماد میں نہیں لیا؟
ان سب سوالاتی فضولیات کی وضاحت میں نہ تو کبھی ندیم بھائی پڑے نہ ان سے یہ نازک باتیں پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ندیم بھائی نے شادی بھی نہیں کی کہ محلے کی کوئی عورت ان کی بیوی سے ہی سن گن لے لیتی۔ گویا ایک اسراری ہیولا ہے جو ندیم بھائی کے گرد لپیٹا ہوا ہے۔
کئی کمینے ندیم بھائی کی کسی بھی کریڈٹ سے انکار نہ کرنے کی کمزوری بھانپ کر اسے اپنے مطلب کے لیے بھی خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ ندیم بھائی ذرا موٹرسائیکل دینا بہن کو کالج چھوڑ کر آتا ہوں۔ ندیم بھائی ابا بیمار ہیں ذرا کیمسٹ سے دوا تو لے دو۔ اور کیمسٹ ندیم بھائی کے کھاتے میں حساب لکھ دیتا ہے۔
اندر کی بات یہ ہے کہ خود ندیم بھائی کی اپنی زندگی بڑی کڑکی میں گزر رہی ہے۔ ان کے کچھ بچپن کے دوست ہیں جو اب بیرونِ ملک ہیں اور وہ ندیم بھائی کی وضع داری قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے ہیں۔
سنا ہے ندیم بھائی کے والد مرحوم نے کسی شخص کی آڑے وقت میں مدد کی تھی۔ بعد میں اللہ نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور ایک متوسط درجے کا سرکاری ٹھیکیدار بنا دیا۔ وہ بھی کچھ چھوٹے موٹے تعمیراتی کام ندیم بھائی کے سپرد کر دیتا ہے تاکہ تھوڑے بہت پیسے بن جائیں۔
اس محسن کی وجہ سے درمیانے درجے کے دو چار افسروں سے بھی ندیم بھائی کی دعا سلام ہے۔ باقی کہانی ندیم بھائی نے رفتہ رفتہ خود اپنے منہ سے یہ کہہ کے بڑھا لی کہ بس یار مالک کا کرم ہے کہ گورنر سے لے کر چیف سیکرٹری اور چین کے سفیر سے اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل تک کوئی بھی آپ کے بھائی کی بات نہیں ٹالتا۔
گذشتہ ماہ ندیم بھائی نے مشہور کردیا کہ دبئی کے بادشاہ نے انھیں ہنگامی صلاح مشورے کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔ پھر ندیم بھائی ہفتے بھر کے لیے غائب ہو گئے۔ خانیوال میں رہنے والے ایک مشترکہ دوست نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ندیم بھائی سے بہت دنوں بعد اچانک ملاقات ہوئی۔ بہت مزہ آیا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ ندیم بھائی تو دبئی کا کہہ کے نکلے تھے۔
پھر ندیم بھائی ایک دن نمودار ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہاں غائب تھے؟ ارے تمھیں بتایا تو تھا کہ دبئی کے بادشاہ نے صلاح مشورے کے لیے بلایا ہے۔ وہ دو ارب ڈالر یہاں انویسٹ کرنا چاہ رہا ہے۔ آپ کے بھائی نے اسے کہا دوست یہ کام تو ایک ارب میں ہی ہو جائے گا۔ کاہے کو فالتو پیسے ضائع کرتے ہو۔ تب سے وہ آپ کے بھائی کا مرید چل رہا ہے۔
ان دنوں ندیم بھائی پھر غائب ہیں۔ رمضان ملک شاپ والے کو بتا کر گئے ہیں کہ یار افغانستان کے پھنسے ہوئے پیسے امریکہ سے چھڑوانے جا رہا ہوں۔ بس دعا کرنا آپ کے بھائی کی عزت رہ جائے۔
(اس کالم کے تمام کردار غیر حقیقی ہیں۔ کسی فرد یا ملک سے مماثلت کی ذمہ داری لکھاری یا ادارے پر نہیں ہو گی)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر