ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈا پہلے یا مرغی؟ برسوں سے چلنے والے اس مباحثے کا منطقی جواب تو آج تک نہیں ملا لیکن سوچا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے بھئی۔ انڈا اور مرغی دونوں ہی لاجواب ہیں، دونوں کے بنا ہی زندگی پھیکی رہ جانے کا اندیشہ ہے۔
اگر کبھی آپ کو ہمارے بچوں سے ملنے کا اتفاق ہو اور یہ پوچھنے کا موقع بھی مل جائے کہ تمہاری اماں کیا شوق سے کھاتی ہیں تو قسم لے لیجیے جو وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی سوچنے کا تکلف کریں۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جواب ملے گا انڈا۔
ہالینڈ، ہمارے قیام کے دوران بچے جب بھی فون پہ پوچھتے اماں آج کیا کھایا اور جواب میں آملیٹ، فرائی انڈا اور ابلے ہوئے انڈے کی گردان سنتے تو سر پیٹ لیتے لیکن کیا کیجیے کہ ہماری مستقل مزاجی میں کبھی بھی کوئی کمی نہ آئی۔ تب سے وہ ہماری محبت کی شدت جان چکے ہیں۔
ہمیں علم نہیں کہ انڈے سے محبت کب اور کیسے ہوئی، بس یہ یاد ہے کہ جب اماں سردیوں کی دھند بھری صبحوں میں توے سے گرما گرم، پھولا ہوا آملیٹ اتارتیں جس کی بے چین کر دینے والی اشتہا انگیز مہک ہر طرف پھیل رہی ہوتی۔ ساتھ میں اماں کے ہاتھوں کی مہارت کا نشان بل دار پراٹھا تو یقین جانیے کہ ہمیں تو من و سلوی بھی ہیچ نظر آتا۔
یہ محبت اتنی بڑھی کہ ہم نے انواع و اقسام کے روایتی ناشتوں سے منہ پھیر لیا۔ موسم سرما میں ہمارے گھر خصوصی طور پہ گندم کے دلیے کا اہتمام ہوتا۔ اماں علی الصبح دلیہ چولہے پر چڑھا دیتیں جو خوب پک جاتا تو دودھ اور دلیے کا پیالہ ہر کسی کو ملتا۔ دسمبر جنوری کی رگوں میں جمتی سردی میں گھر کے سات افراد دلیہ نوش جان فرماتے اور ایک چھوٹی بچی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بناتے ہوئے انڈا اور پراٹھا کھانے کی فرمائش کرتی۔ اماں کے صبر کی داد دیجئے کہ ماتھے پہ کوئی بھی شکن ڈالے بنا یا گھر کے بغیر ہماری فرمائش پوری کرتیں۔
بہت برسوں کے بعد ہم ماں کے عہدے پر فائز ہوئے اور بدقسمتی سے اماں جیسی ماں بننے میں ناکام رہے۔ حیدر میاں کے نخروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بزور شمشیر انہیں دال کھانے پہ مجبور کرتے تب اماں ہمیں شرم دلانے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ پوچھتیں کیا تمہیں اپنا بچپن یاد ہے؟
گرمیاں آتیں تو دلیے کا اہتمام چھوڑ کے اماں دہی کے کونڈے پہ آ جاتیں۔ رات کو اہتمام سے مٹی کی پرات ( کنالی ) میں دودھ اور چمچہ بھر دہی ملا کر ململ کے کپڑے سے ڈھک دیا جاتا۔ صبح دم برف جیسی موٹی تہہ جیسا جما ہوا دہی دیکھ کر اماں بے اختیار مسکرا اٹھتیں۔ لذیذ دہی اور دیسی گھی کے پراٹھے کھا کر سب گھر سے نکلتے لیکن انڈے سے ہمارا عشق موسم گرما میں بھی اسی طرح قائم رہتا۔
مشکل جب پیش آتی جب ہم گرمی کی چھٹیاں گزارنے نانی کے گھر جاتے۔ شہر سے آئی ہوئی بیٹی اور بچوں کے اعزاز میں گھر گھر دعوت ہوتی، کہیں دوپہر، کہیں رات اور کہیں صبح کا ناشتہ۔
مہمان خصوصی بن کے جب ہم اس گھر پہنچتے جہاں میزبانوں نے گرما کے حساب سے ہر نعمت دستر خوان پہ سجائی ہوتی تو ہماری نظر اشتیاق سے ایک جائزہ لیتی اور پھر منہ لٹک جاتا۔ قصہ یہ ہوتا کہ اہل دیہات گرما میں یہ سوچ کر انڈا نہیں کھاتے کہ اتنی گرمی میں انڈا، توبہ توبہ! اب انہیں کیا علم کہ محبت کا موسموں کا کیا تعلق؟
اب ہوتا کچھ یوں کہ سب ذوق و شوق سے ناشتے کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور ہم اماں کی بغل میں دبک جاتے۔ اماں زیر لب سمجھاتیں، کبھی ٹہوکے دیتیں کہ کچھ تھوڑا سا پلیٹ میں ڈال لو۔ لیکن اگر ہم اتنا تر نوالہ ہوتے تو رونا کس بات کا تھا؟ آخر میزبان تاڑ لیتے کہ کچھ مسئلہ ہے۔ بار بار پو چھا جاتا، اماں ٹالتیں مگر آخر کو بتانا ہی پڑتا۔ اماں کہتیں، ایہہ کڑی بڑا تنگ کردی اے، تسی اینج کرو کہ اک انڈا بنا دیو ( یہ بچی بہت تنگ کرتی ہے اسے ایک انڈا تل دیجئے ) ۔
اب دیہات میں ابھی فریج کا زمانہ تو تھا نہیں کہ کھولا اور انڈا حاضر سو میزبان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے۔ کئی بچوں کو ادھر ادھر ہمسائے میں دوڑایا جاتا۔ آخرکار مرغیاں پالنے والے گھروں میں سے کسی ایک کے گھر سے انڈا برآمد کیا جاتا اور یوں یہ معاملہ ختم ہوتا۔
نانی کو چونکہ اس مشکل کا اندازہ تھا اس لئے وہ پہلے سے ہی کئی لوگوں سے معاہدہ کر لیتیں کہ جونہی ان کی کوئی بھی مرغی انڈا دے کر فارغ ہو گی، وہ نانی کو فوراً پارسل کر دیا جائے گا۔
انڈے کی اسی محبت میں ڈوبے ڈوبے ہم ہوسٹل تک جا پہنچے لیکن صبح بھاگم بھاگ کالج پہنچنے کی جلدی میں ناشتہ کرنے کی عادت تو ہم سے چھوٹ گئی۔ اب ہوسٹل کے میس کا قاعدہ کچھ یوں تھا کہ جس لڑکی نے ناشتہ نہ کیا ہوتا وہ اپنے حصے کا انڈا دوپہر یا رات کو کلیم میں لے سکتی تھی۔ وہ وقت نہیں بھولتا جب ہم بلند آواز میں میس کے بیرے کو کہتے، چاچا ہمارا انڈا دے دو۔ یہ کہتے ہوئے ہم دوست قہقہہ لگانا کبھی نہ بھولتے۔
لاہور ہی کا قصہ ہے کہ شادی کے بعد مہمان بن کے پھوپھی کے گھر اترے جو اندورن شہر کی مکین تھیں۔ لاہوری روایات کے مطابق میز بونگ پائے، حلوہ پوری، کلچے اور دہی لسی سے سج گئی۔ میزبان ہمیں قتل کرتے کرتے رہ گئے جب ہم نے دبے لفظوں میں آملیٹ کی فرمائش کر دی۔
بچوں کی آمد پہ ہم نے سوچا کہ اب ہماری محبت جنیاتی یا ورثے کے طور پہ منتقل ہو گی۔ لیکن جناب بچوں نے ہمارا ”کلون“ بننے سے انکار کرتے ہوئے یہ بار محبت اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ ہماری منت سماجت، ڈانٹ، فوائد کے لیکچر کچھ بھی تو کام نہیں آیا۔
دیکھیے انڈے کا ذکر ہم نے کسی مقصد سے چھیڑا تھا اور ہم وہ کرنے کی بجائے یہ قصہ لے کر بیٹھ گئے۔
انڈا پہلے یا مرغی ہمیں ایک اور بحث یاد دلاتی ہے، موٹاپا پہلے یا پولی سسٹک اووریز؟
ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس مخمصے میں عام لوگوں کے ساتھ بے شمار ڈاکٹر بھی ہیں جن کو اس کا جواب نہیں ملتا۔
چلیے بتائے دیتے ہیں کہ انڈا پہلے یا مرغی کا فیصلہ تو آج تک نہیں ہو سکا لیکن موٹاپا پہلے یا پولی سسٹک اووریز کا جواب ہم ڈھونڈ چکے ہیں اور شومئی قسمت ساٰئنس نے اسے ثابت بھی کر دیا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ آپ بھی حقیقت جان لیں۔
چلتے چلتے بتاتے چلیں کہ انڈے سے ہماری محبت ابھی بھی اسی طرح قائم ہے بلکہ شاید بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ سو نوٹ کر لیجیے کہ ہماری میزبانی کی صورت میں آپ کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا اگر آپ کی فریج میں انڈے موجود ہیں تو!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر