نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضمنی انتخاب پی پی 206 خانیوال، روایتی سیاست عروج پر ! !||افتخار الحسن

جو کل پی ٹی آئی اور عمران خان کو گالیاں دیتے تھے آج وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں اور قربانیاں دینے والے تماشائی اسی طرح عام انتخابات میں مسلم لیگ اور شریف خاندان کو گالم گلوچ کرنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں جبکہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے یہاں بھی تماشائی ہی ہیں

افتخار الحسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تمام سیاسی جماعتیں پارٹی کے اندر جمہوری دعووں کے باوجود نہ جمہوریت لاسکیں نہ ورکرز کو مقام دے سکیں اور نہ ہی ووٹ کو عزت دو کے نعروں کی لاج رکھ سکے۔ غریب ورکرز تمام سیاسی جماعتوں میں نعروں، احتجاجی مظاہروں، جیل کی صعوبتوں اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے کیلئے ہی تیار کئے جاتے ہیں ۔ خانیوال ضمنی انتخاب اس کی واضح مثال ہے جو کل پی ٹی آئی اور عمران خان کو گالیاں دیتے تھے آج وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں اور قربانیاں دینے والے تماشائی اسی طرح عام انتخابات میں مسلم لیگ اور شریف خاندان کو گالم گلوچ کرنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں جبکہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے یہاں بھی تماشائی ہی ہیں یعنی تمام سیاسی جماعتوں کا منشور ایک ہی ہے کہ دولتمند اور پارٹی پر خرچ کرنے والا ہی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹس کا حقدار ہے غریب ورکرز کو کبھی بھی یہ خواب دیکھنے کی ہرگز اجازت نہیں کہ وہ کبھی بھی الیکشن میں حصہ لے سکے اس کی بہترین مثال خانیوال ضمنی الیکشن میں سامنے آئی ہے حاجی نشاط ڈاھا عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پی پی 206 خانیوال سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار رانا سلیم تھے جو کہ الیکشن ہار گئے حاجی نشاط ڈاھا مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی تھے اور متعدد بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور شریف خاندان سے قریبی تعلق کے دعوے دار تھے مگر جیسے ہی شریف خاندان اقتدار سے الگ ہوئے مرحوم حاجی نشاط ڈاھا بھی شریف خاندان سے الگ ہوگئے اور بہت سے گلے شکوے سے بھری پریس کانفرنس میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا مگر اپنی نشست سے مستعفیٰ نہیں ہوئے جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حاصل کی تھی اور تقریباً گزشتہ تین سال میں متعدد بار پریس کانفرنس کرکے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرتے رہے حکومتی ہمدردی حاصل کرنے مسلم لیگ ن میں گروپ بندی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے بہرحال وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست ضرور بن گئے بلکہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے چچا بن گئے اور پھر وزیر اعلیٰ نے علاج معالجہ کیلئے خصوصی طیارہ بھی فراہم کیا جس پر وہ علاج کیلئے بیرون ملک روانہ ہوئے مگر زندگی نے ساتھ نہ دیا اور اب اسی نشست پر ضمنی انتخاب ہونے جارہے ہیں اب ان کی اہلیہ نورین نشاط ڈاھا تحریک انصاف کی امیدوار ہیں اور اپنی بھرپور الیکشن کمپین چلائی ہوئی ہے اسی طرح عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے رانا سلیم جو الیکشن میں مسلم لیگ کے امیدوار کے مدمقابل شکست سے دو چار ہوئے اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں میدان میں اترے ہوئے ہیں مسلم لیگ کے دیرینہ ساتھی ورکرز جنھوں نے قربانیاں دیں وہ ششدر رہ گئے کہ صرف تین سال قبل ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو مسلم لیگ ن نے کس بنیاد پر پارٹی ٹکٹ جاری کیا حالانکہ پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے رانا عرفان اور ان کے بھائی عبدالرحمان جو عام انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور ہار گئے مگر نہ پارٹی چھوڑی اور نہ ہی غائب ہوئے بلکہ پارٹی کو مشکل حالات میں چلانے کیلئے بھرپور اقدامات کیے اور پارٹی ورکرز کی حوصلہ افزائی کیلئے پارٹی کنونشن کرتے رہے مریم نواز کا دورہ جنوبی پنجاب ہو یا حمزہ شہباز شریف کا ہر بار رانا عرفان اور اس کی فیملی پیش پیش رہے اب پارٹی ٹکٹ اس شخص کو جاری کر دیا گیا جس کی وڈیوز موجود ہیں کہ کس طرح وہ عام انتخابات میں مسلم لیگ اور شریف خاندان پر کیچڑ اچھال رہا ہے اور تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے بہر حال پارٹی کے ورکرز نے نواز شریف کو خط بھی ارسال کیا ہے اور وڈیوز کلپس بھی بھیج دئیے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کہاں گیا ابھی فی الحال فوری طور پر مسلم لیگ ن کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ ابھی ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا جس کیلئے مشاورتی عمل جاری ہے متفقہ طور پر پارٹی ٹکٹ جاری کیا جائے گا ۔ خانیوال ضمنی انتخاب میں میدان سج گیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مقابلہ سخت ہوتے نظر آ رہا ہے دونوں جماعتوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے تحریک انصاف کے ورکرز بھی شدید نالاں ہیں کہ پارٹی نے ورکرز کے بجائے ایک روایتی سیاسی خاندان کو ٹکٹ جاری کردیا ہے تحریک انصاف کو پارٹی ورکرز کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا حکومتی امیدوار ہونے کے باوجود مشکل مقابلہ ہوگا اسی لئے حاجی نشاط ڈاھا کے بھانجے مسعود مجید ڈاھا کو ڈراپ کر کے اب ان کی اہلیہ نورین نشاط ڈاھا کو ٹکٹ دیا گیا ہے کہ ہمدردی کا ووٹ بھی حاصل کیا جاسکے ۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کیلئے بھی شدید دشواریاں پیدا ہو گئی ہیں ایک تو پارٹی کے اندر گروپ بندی اور دوسرا سب سے بڑا چیلنج تحریک لبیک کے امیدوار کا میدان میں اترنا عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدوار نے اسی حلقہ سے پندرہ ہزار ووٹ حاصل کئے اور اب اس سے زیادہ کی توقع کی جارہی ہے جس کا زیادہ نقصان مسلم لیگ کے امیدوار کو ہی ہونا ہے بہرحال دونوں بڑی پارٹیوں کیلئے مشکل الیکشن ہے اور دونوں کیلئے جیتنا انتہائی ضروری اسی لیے دونوں جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔
پی ٹی آئی کے ورکرز کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے مہنگائی اور بیروزگاری کا طعنہ سننے کے علاوہ اب ورکرز خود ہی متاثر ہورہے ہیں کب تک اس روزانہ کی مہنگائی کا دفاع کیا جا سکتا ہے ڈیرہ غازی خان میں جنوبی پنجاب تحریک انصاف کے صدر سینیٹر عون عباس بپی نے پارٹی کنونشن منعقد کیا جس میں پارٹی ورکرز نے گلے شکوے شروع کئے تو سینیٹر عون عباس بپی طیش میں آ گئے اور تحصیل صدر کوٹ ادو رؤوف رحمان کو کہا کہ باہر نکل جائیں جس پر کوٹ ادو کے صدر نے عون عباس بپی کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ آپ کبھی کونسلر منتخب نہیں ہوئے آپ کو کیا معلوم کہ ووٹرز اور ورکرز کی کیا عزت ہوتی ہے آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے پارٹی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کوٹ ادوکے صدر رؤوف رحمان اپنے ساتھیوں سمیت پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے صوبائی صدر عون عباس بپی کے کنونشن کا بائیکاٹ کردیا اور واپس چلے گئے جس پر مقامی قیادت یعنی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے منانے کی کوشش کی مگر تاحال وہ پارٹی سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ہم مکمل آزاد ہیں اور کسی صورت پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کے ساتھ نہیں رہیں گے جنوبی پنجاب کے صدر تحریک انصاف سینیٹر عون عباس بپی کا ورکرز کنونشن بدمزگی کا شکار ہو گیا اور مقامی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ جس نے کبھی کونسلر کا الیکشن نہ لڑا ہو وہ کس طرح عام ورکرز یا ووٹرز کی قدر سے واقف ہو سکتا ہے بہرحال تحریک انصاف کے کارکنوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور جنوبی پنجاب میں ہونے والے ورکرز کنونشن ورکرز کی عدم دلچسپی سے ناکام رہے کہیں بھی ورکرز کی تعداد قابل ذکر نہیں محض ممبران قومی و صوبائی اور ضلعی و تحصیل عہدیداران کی شرکت تھی ورکرز مایوسی کا شکار ہیں اور مہنگائی بیروزگاری پر عوامی ردعمل کے سامنے کوئی دلیل قابل قبول نہیں جس سے آہستہ آہستہ ورکرز خود کو خاموشی کے ساتھ الگ کررہے ہیں

٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظر انداز!||شوکت اشفاق

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

افتخار الحسن  کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author