عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحوں کی منتظر قوم اُمید کی متلاشی کیوں ہو؟ سانحے بھی وہ جو دامن میں پل رہے ہوں اور آنے والے سانحوں کی خبر دے رہے ہوں۔
کیا ہم کسی جزیرے پر بستے ہیں جس کی حدیں فقط پانیوں کو چھوئیں؟ دُنیا میں ہیں تو دُنیا جیسے طور اطوار کیوں نہیں؟ قوم ہیں تو قوم جیسے انداز کیوں نہیں؟ وہ کون سی لغت ہے جس کی تعریف پر ہم پورا اُترتے ہیں؟
قومی مفاد میں تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیا گیا اور وسیع تر قومی مفاد میں ہی تحریک لبیک کو بحال کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ قومی مفاد میں متعدد پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ دار تنظیم کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور سیاسی طور پر متحرک کرنے کا فیصلہ بھی جاری کیا گیا۔
تحریک لبیک کا معاہدہ ابھی سر چڑھا نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان سے سیز فائر، مذاکرات کے آغاز اور ایک اور معاہدے کی شنوائی ہے۔ ایک خُفیہ معاہدے میں ریاست کس حد تک پیچھے ہٹی نہیں معلوم، ایک اور معاہدے میں کہاں کھڑی ہو گی۔۔۔
ریاست کو خبر ہو یا نہ ہو مگر سیاسی جماعتوں کو ضرور پرواہ ہونی چاہیے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی نظریاتی اساس کے ساتھ انتہا پسندی کے خلاف اکٹھی ہو چکی ہیں مگر ان نمائندہ سیاسی جماعتوں کو اپنی فکری اساس بھی طے کرنا ہو گی تاکہ مستقبل میں بقا کی جنگ لڑ سکیں۔ یہ تو طے ہے کہ سیاست دانوں کو واضح اور روشن نظریے کے ساتھ سیاست کرنا ہو گی۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک چھت تلے جو معاہدہ کیا تھا، وہ کیا ہوا؟ ایک ایسا سماجی معاہدہ جو اس سے پہلے پاکستان میں کبھی دیکھنے کو نہ ملا اور جس کا نتیجہ پاکستان میں امن کی صورت نکلا۔۔۔
کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ وہ ’قومی پلان‘ ان نئے معاہدات کے بعد دفن ہو گیا؟ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ریاست اپنی طاقت کا استعمال صرف کمزروروں پر کر ے گی؟
پاکستان میں اِس وقت نیکٹا کے مطابق کم و بیش ستر سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ ایک تنظیم کے کالعدم سے عدم ہوتے ہی کئی ایک نے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
گذشتہ تین سالوں میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قومی جماعتوں کو جس طرح مطعون کیا گیا اور جس طرح احتساب کے نام پر دیوار سے لگایا گیا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔
دوسری جانب جس طرح کالعدم جماعتوں کو ہمدم بنا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ سیاسی نظام ناکام ہو رہا ہے، یہ اگر سوچی سمجھی ترکیب نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا اب حکومت انتہا پسند جماعتوں کی سہولت کاری کا کام سر انجام دے گی اور عوام سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کی بجائے چند مخصوص ٹولوں کے مفادات کے نگہبان بنیں گے؟ کیا جمہوریت ملوکیت کو جنم دے گی؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے
نئے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں گروہوں اور جتھوں کو جگہ دینا دراصل جمہوریت کی نفی ہے۔ محمد علی جناح کا پاکستان جس فکری بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا، اُس بُنیاد کو توڑنے کی کوشش ہے۔
اسی ہزار جانوں نے جو نذرانے پیش کیے اُن کے لہو پر سودے بازی کے مترادف ہے اور یہی نہیں، چند افراد کے ذاتی ایجنڈے کی ترویج میں قومی مفاد کو دراصل زد پہنچانے کی کوشش ہے۔
آئندہ انتخابات سے قبل طاقتور جتھوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو قابو کرنے کی پالیسی وسیع تر مفاد میں نہیں بلکہ سنگین نقصان میں ہے۔
ایک جانب متحدہ قومی موومنٹ جیسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی، محض ایک تقریر سُننے کے الزام میں کئی رہنماؤں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ جماعت آج بھی دباؤ کا شکار ہے۔
اگر تحریک طالبان سے بات ہو سکتی ہے تو بلوچوں سے بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک فرقہ ورانہ تنظیم بھی پابندی ہٹانے ورنہ طاقت کے استعمال کی دھمکی لگا رہی ہے، کیا ریاست وہاں بھی سمجھوتہ کر سکتی ہے؟ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیا چاہ رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا بھی ہے؟
نظریاتی، سیاسی اور مذہبی تقسیم کسی طور ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ شخصیات کے مفادات کے تحفظ کی بجائے اداروں کو بھی ملکی مفاد میں سوچنے کی ضرورت ہے، ورنہ یونہی ہر دوسرے دن کوئی گروپ ریاست کو بلیک میل کرے گا۔
عوامی رائے اور آئین کی عملداری میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے مناسب موقع کی تلاش کی بجائے اپنا کردار کب ادا کریں گی؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ