مالاکنڈ کے علاقے سخاکوٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے مقامی صحافی محمدذادہ اگرہ کو قتل کر دیا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ملزمان نے صحافی محمدذادہ کو پیر کی شام گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کیا۔
مقتول صحافی کی لاش کو پولیس نے پوسٹ مارٹم کے لیے درگئی ہسپتال منتقل کیا ہے۔
خیال رہے کہ مقتول محمد زادہ آگرہ نے ملاکنڈ میں ڈرگز مافیا، مقامی انتظامیہ کی کرپشن اور لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔
انہوں نے ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری میں مقامی پولیس اور انتظامیہ پر منشیات فروشوں کی سرپرستی کا الزام عائد کیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ میں سماجی کارکن محمد زادہ کے قتل کے بعد عوامی احتجاج کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو عہدوں سے فارغ کرنے کے احکامات جاری کردیے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق ڈپٹی کمشنر محمد الطاف شیخ اور متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو دونوں افسران کو فوری طور پر او ایس ڈی کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
پریس ریلیز کے مطابق دونوں افسران کے خلاف انکوائری کرکے رپورٹ وزیراعلیٰ کے دفتر میں پیش کی جائے۔
سماجی کارکن محمد زادہ کو گذشتہ روز ضلع مالاکنڈ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ محمد زادہ کو کالج کالونی، سخاکوٹ میں قتل کیا گیا جبکہ واقعے کا مقدمہ مقتول کے بھائی عبدالجلال کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران جائے واردات کے قریب واقع سکول کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرکے قتل کے سلسلے میں ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ الطاف شیخ (جنہیں اب عہدے سے فارغ کیا گیا) نے منگل کی صبح انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محمد زادہ گاڑی میں ایک شخص کے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ اپنے مکان کے باہر بیٹھے رہے۔
الطاف نے بتایا: ’جب محمد زادہ گاڑی سے اترے تو اسی دوران سخاکوٹ بازار سے دو مسلح موٹر سائیکل سوار ملزمان آکر ان پر فائرنگ کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہے۔‘
انہوں نے بتایا تھا کہ جس گاڑی میں محمد زادہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے تھے، اس کے ڈرائیور کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انہوں نے جو بیان دیا ہے، وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے جانے والے مناظر سے مختلف ہے۔
الطاف شیخ نے بتایا تھا کہ گاڑی کا ڈرائیور مقتول کا قریبی دوست ہے لیکن اس مقدمے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے اور ملزمان کو گرفتار کرکے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
محمد زادہ سوشل میڈیا پر منشیات کے استعمال کے خلاف مختلف مہم چلایا کرتے تھے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف طلبہ ونگ کے سابق عہدیدار بھی تھے۔
محمد زادہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی یہی درج ہے کہ ان کا مشن ’ڈرگز فری نیشن‘ ہے۔ وہ فیس بک پر نشے کے خلاف مختلف ویڈیوز بھی اپ لوڈ کرتے تھے۔
انہوں نے گذشتہ ماہ 12 اکتوبر کو اپنی فیس بک ٹائم لائن پر لکھا تھا کہ ’ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ میرے مخالفین اور سیاسی مداریوں کی منصوبہ بندی اور ناپاک سازش کے تحت مجھے ہراساں کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔‘
تاہم پوسٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان کے مخالفین کون ہیں۔ پوسٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’اگر اس منصوبہ بندی اور ’ناپاک سازش‘ پر ناجائز عمل درآمد کے نتیجے میں مجھے کچھ ہوا تو میرے خاندان کی تمام تر دعویداری ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ پر ہوگی۔‘ تاہم ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی جانب سے ایسے تمام الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
محمد زادہ کے قتل کے خلاف ٹوئٹر پر #justiceformohammadzada کے نام سے ہیش ٹیگ بھی چل رہا ہے، جس میں حکومت سے محمد زادہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے بھی اس قتل کی مذمت کی گئی ہے اور قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
محمد زادہ کے قتل کے خلاف سخاکوٹ کے عوام نے مظاہرہ بھی کیا اور مالاکنڈ کی مرکزی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ مظاہرین نے محمد زادہ کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’محمد زادہ کو منشیات کے خلاف مہم کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے:
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ گلزار احمد
ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اور دو خواتین کے سمارٹ فون۔۔۔ امجد قمر
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ