وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدم اور وجود کے کھیل سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ موت وہ فسطائی فرمان ہے جو مکالمے کا روادار نہیں۔ نامعلوم کی نیند کے ایک لامتناہی سلسلے میں بیداری اور غفلت کے جلتے بجھتے روز و شب کا ایک مختصر وقفہ، فرد کی زندگی یہی ہے۔ گزشتہ نسل جگہ خالی کرے گی تو زمین آئندگان کو خوش آمدید کہہ سکے گی۔ یہ سب درویش کو بھی اسی طرح معلوم ہے جیسے آپ کو۔ تو پھر چند برسوں سے یہ احساس کیوں ہو رہا ہے گویا مہربان آنکھوں اور مانوس آوازوں کا گولہ گنڈا وقت کے سرکنڈے پر پھسلتا ہوا تپتی ہوئی ریت پر جا گرا ہے، برفانی ذروں کے رنگ ایک ایک کر کے معدوم ہو رہے ہیں اور بس اتنی ہی جگہ گیلی ہو پائی ہے، جتنی ایک دوست کے لئے بہتے آنسووں سے نمدار ہو سکتی تھی۔ تسلیم کہ کوویڈ کی وبا کو اب قریب تین برس ہونے کو آئے ہیں مگر جنگ، آفات اور وبائیں تو انسانی تاریخ میں ساتھ ساتھ چلی ہیں۔ اس میں انہونی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے۔ تو چلئے مان لیتے ہیں کہ ہر نسل کی مدت عمر میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب اسے یکے بعد دیگرے دوستوں کے اوجھل ہونے سے احساس ہوتا ہے کہ ہماری مہلت ختم ہونے کو ہے۔ ہونے اور نہ ہونے کے اس وقفہ تذبذب میں آگے نکل جانے والوں کو آحترام دینا ہو گا۔ اس کا ایک ممکنہ ڈھنگ یہ ہو سکتا ہے کہ رفتگاں کے چھوڑے ہوئے تخلیقی نقوش کی معنویت بیان کی جائے۔
29 اکتوبر کو ابرار احمد اپنے حلقہ شعر کے ساتھیوں علی افتخار جعفری اور محمد خالد سے جا ملے۔ ستر کی دہائی میں لاہور سے اٹھنے والی غزل اور نظم کا ایک باب مکمل ہو گیا۔ اس فہرست میں جاوید انور کو بھی شامل ہونا چاہیے تھا مگر زمانی حدوں میں ہم آہنگی کے باوجود جاوید انور کے بیرون ملک قیام سے ایک مکانی بعد آ گیا تھا۔ ابرار احمد کون تھا؟ 6 فروری 1954 کو جڑانوالہ کے قصبے میں پیدا ہونے والے ابرار احمد نے ستر کی دیائی کے آخری برسوں میں اردو نظم سے آشنائی کی تھی۔ نظموں کا مجموعہ ’آخری دن سے پہلے‘ 1997ء میں شائع ہوا۔ غزل کا اثاثہ ’غفلت کے برابر‘ کے عنوان سے 2007 میں شائع ہوا۔ دیکھئے، میرا ایک مسئلہ ہے۔ میں ادب کی فلسفیانہ اور مجرد تفسیر میں یقین نہیں رکھتا۔ اگر شاعر کو اپنی رسائی کے لئے میری کج مج بیانی ہی کی احتیاج تھی تو اس نے شعر کیوں کہا، خود بیٹھ کے ’نیند اور غفلت میں ما بعد نوآبادیاتی جبر‘ جیسے عنوان سے تفلسف آرائی کر لیتا۔ اس سے کہیں بہتر ہو گا کہ میں آپ کو اپنے دوست کی بہترین نظموں میں سے ایک نظم ’ قصباتی لڑکوں کا گیت‘ کا ایک ٹکڑا سناوں۔
ہم لوٹیں گے تیری جانب
اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کو
عمروں کے رت جگوں سے دکھتی آنکھوں کے ساتھ
اونچے نیچے مکانوں میں گھرے
گزشتہ کے گڑھے میں
ایک بار پھر گرنے کے لیے
لمبی تان کر سونے کے لیے
ہم آئیں گے تیرے مضافات میں
مٹی ہونے کے لئے
2012ءمیں ڈاکٹر ابرار احمد نے حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس میں خطبہ پیش کیا تھا۔ اس شام ابرار احمد ادب اور اپنے عصر کی تفہیم کے بیان میں بہت سی منزلیں عبور کر گیا تھا۔ دونوں بازو روسٹرم پر رکھے وہ دہشت کے موسم میں لفظ اور اظہار کے کردار پر کسی گیانی استاد کی طرح روشنی ڈال رہا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق اب اسی برس کا ہونے کو آیا ہے۔ جہاں اس ادارے نے ادب کی بے پناہ خدمت کی ہے، اس کی ایک روایت ہم عصرانہ چشمک بھی رہی ہے۔ 2012ءکی اس شام بھی اس قسم کے کچھ اشارے دیکھنے میں آئے۔ درویش ادب میں گروہ بندیوں کا قائل نہیں۔ لکھے ہوئے لفظ میں توانائی ہے تو وہ فکری اور گروہی حد بندیاں پار کرکے پڑھنے والے تک پہنچے گا۔ اس شام حلقے کی انتخابی سیاست سے پھوٹنے والی شکررنجی کو ادب کی اقلیم میں دراندازی کرتے دیکھا تو میں آزردہ ہوا۔ شاعری کا تو کوئی دعویٰ نہیں البتہ دوستی کے اپنے بناوبگاڑ ہوتے ہیں۔ اس شام ایک متشاعر نے ابرار احمد سے اپنی محبت کو ’مکان اور ستارے میں پرواز کی تیکنیکی دشواریاں‘ کے عنوان سے ایک نظم کی صورت میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ایک ٹکڑا دیکھیے:
ابرار احمد!
ہمیشہ دو نقطوں کے درمیان
بغیر رکے اڑتے رہنے سے تھکن طاری ہو جاتی ہے
اگر چاہو تو میری ہتھیلی پر آن اترو
میں تمہارے سینے کی حرارت محسوس کرنا چاہتا ہوں
ابرار احمد میری ہتھیلی پر اترنے کی بجائے ’اپنے قصبے کے مضافات میں مٹی ہونے کے لئے‘ چلے گئے۔ قصباتی لڑکے دنیا بھر میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے باوجود اونچے نیچے مکانوں کی بوڑھی اینٹوں سے کیا ہوا وعدہ نہیں بھولتے۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر