اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزرا، آرمی چیف اوران کے ساتھ بیٹھے سول وملٹری انٹیلی جنس سربراہان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا”بتائیے ،پنجاب میں جاری کالعدم جماعت کے احتجاج سے کیسے نمٹا جائے؟” وہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اجلاس میں سنجیدگی اورپریشانی حاوی تھی، حکومتی اجلاسوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب چیف ایگزیکٹو اجلاس کے شرکا ءسے رائے مانگے تو سب سے سینئر سب سے پہلے بات کرتا ہے اور پھر عہدے کے لحاظ سے سب اپنی اپنی باری پر رائے دیتے ہیں۔ موجودہ نظام میں سب سے سینئر نے معاملے کوبات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم سے رفع دفع کرنے کی رائے دی تو اجلاس کے باقی شرکا ءنے بھی باری باری وہی موقف اختیارکرلیا۔ ہاتھی کے پاں میں سب کا پاں۔اقتدارکے ایوانوں میں منعقدہ اجلاسوں کا المیہ بھی یہی ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور کی کہی ہوئی بات سے عام طورپراختلاف کیا ہی نہیں جاتا۔ایسے میں فیصلے طاقت کے اصول پرہوتے ہیں ناں کہ منطق کی روشنی میں۔اجلاس کے تمام شرکاءایک ہی پیج پرتھے۔سب کی رائے آنے کے بعد عمران خان ایک بار پھر بولے، یہ کالعدم جماعت ایک دہشت گرد تنظیم اور پورے معاشرے کےلئے نقصاندہ ہے ،ہمیں دہشت گردوں سے بات نہیں کرنا،باہرجا کرسب یہی موقف اختیار کریں،ایک واضع اورمختلف موقف اختیار کیا گیا تواس باراجلاس کے شرکا ءنے وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملادی۔ تاہم فواد چوہدری شاید وہ واحد وزیرہوں گے جو وزیراعظم کی اس بات کے دل وجان سے حامی تھے۔اس اجلاس کے تسلسل میں اکتوبرکے آخری ہفتے میں کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا بھی ایک اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کے دوران ایک موقع پر تو وزیردفاع پرویزخٹک نے وزیراعظم کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ کالعدم جماعت کے خلاف کاروائی کی بجائے انہیں پیسے دیں۔ ایک سرکاری افسر نے اپنے وزیردفاع کی حمایت بھی کی تو وزیراعظم بولے وہ کہاں سے اورکیوں پیسے دیں؟ وزیراعظم کا خیال تھا کہ عشق رسول کی راہ میں جتنا کام انہوں نے کیا ہے وہ شاید ہی کسی نے کیا ہو مگر حکومتوں کو ڈکٹیٹ کرنا اورپولیس والوں کو شہید کرنا عشق رسول نہیں ریاست کی بربادی ہے۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی لیکن یہ واضح ہوگیا کہ دراڑ حکومتی اداروں کے اندر ہی ہے،اب اکتوبر2021 میں ہوئے ان دواجلاسوں سے زرا پہلے اپریل 2021 کے وسط میں چلتے ہیں۔اس وقت وزیراعظم اور فوج نے تحریک لبیک کو کالعدم قراردینے کامشترکا اور مصمم فیصلہ کیا تو تمام حکومتی اداروں نے اس فیصلے پرلبیک کہا۔ اس وقت پنجاب میں چیف سیکرٹری رفیق جواد ملک ۔ ہوم سیکرٹری مومن آغا،انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی اورآئی ایس آئی کے سیکٹرکمانڈر مصدق ملک تھے۔ اس فیصلے پرعملدرآمدکے لیے سب نے صرف ایک شخص کی معاونت کی اوروہ تھا آئی جی پنجاب پولیس۔ 12 اپریل 2021کو پنجاب پولیس نے کاروائی کے آغاز میں اس تنظیم کے سربراہ کو گرفتار کیا تو پورے پنجاب میں 105 مقامات احتجاج کے باعث بند کردیے گئے لیکن پولیس کی کاروائی کے باعث 48 گھنٹوں میں لیاقت باغ راولپنڈی سمیت 104 مقامات کھول دیے گئے، تاہم لاہور میں مسجد رحمت اللعالمین پر احتجاج چارروز تک جاری رہا جس پر بعد میں قابو پالیا گیا ۔اس وقت احتجاج کے د وران پولیس کے 4 جوان شہیداور متعدد زخمی ہوئے۔ آئی جی کی طرف سے زخمیوں اور شہدا کے لواحقین کی مالی اوراخلاقی ہمت افزائی کے ساتھ پنجاب پولیس کی طرف سے محکمہ داخلہ پنجاب کے ذریعہ تحریک لبیک کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قراردینے کے لیے مرکز کو خط لکھا گیا جس نے فوری کاروائی کی اور یہ تنظیم دہشت گرد قراردے دی گئی ۔اس جماعت کو سیاسی اعتبار سے بھی کالعدم قرار دینے کے لیے خصوصی مراسلہ لکھا گیا مگر حکومت تذبذب کا شکارکردی گئی۔آئی جی پولیس انعام غنی کی اس سفارش کو گول کیا گیا تواس جماعت نے آزاد کشمیرکے عام انتخابات سمیت دیگرانتخابی معرکوں میں بھی حصہ لیا اور ٹھیک 6 ماہ بعد اکتوبر2021 میں یہی جماعت ایک بار پھر سڑکوں پر آگئی۔ اس عرصے میں پنجاب میں انتظامیہ تبدیل ہوئی تومرکزمیں بھی بعض معاملات پردراڑ آگئی،نئے آئی جی کے طورپرراو ¿سردارکے ذمے سخت کام تھا۔ وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں مگر شاید اس بار پرفارم نا کرسکے یا شائدان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر وہی صاحب ہیں جنہوں نے سیاسی جماعت کے طورپراس تنظیم کو کالعدم قراردینے کا معاملہ التوا میں ڈالنے میں اہم کردارادا کیا تھا،اس باربھی ان کا کردارگول ہی تھا۔ یہی حال پنجاب کے چیف سیکرٹری کامران افضل اورہوم سیکرٹری ظفرنصراللہ کا تھا۔ایک سے بڑھ کرایک نمونہ۔ظاہر ہے یہ اوپر بھی دیکھ رہے تھے،انہوں نے اصل ظلم تو پنجاب میں رینجرزطلب کرکے وزارت داخلہ کے ساتھ یہ طے کرکے کیا کہ اب پولیس رینجرز کے ماتحت ہوگی، یہ کرتے وقت یہ تک نہ سوچا گیا کہ وسائل کی کمی کے باوجود اسی پولیس نے 6 ماہ پہلے اسی جن کو بوتل میں بند کیا تھا۔ادھروزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ رینجرزبھی بددل ہورہی ہے اور اسے تو صرف گولی چلانا آتی ہے اگرچناب کے پل کی دوسری طرف کالعدم جماعت کے مظاہرین پر گولی چلائی گئی تو اس کا ادارے میں منفی تاثرجائے گا اوردشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھائے گا۔دوسری طرف پنجاب میں احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ کم و بیش10 دن سے مسلسل بند تھی اورپہلے ہی مہنگائی سے تنگ عوام تنگ آمد بجنگ آمد مظاہرین کے ساتھ مل رہے تھے، اس احتجاج کے دوارن پولیس کے 7 جوان شہید ہوگئے، حکومت پردباو اوربڑھا مگرکوئی حکومتی عہدیدارپولیس شہدا کے گھر تک نہ گیا۔پھر اچانک مفتی منیب برآمد ہوئے ،وہ کراچی کے بزنس مین عقیل کریم ڈھیڈی کے ذریعے آرمی چیف کے پاس پہنچے اور کالعدم تنظیم سے مذاکرات کے ضامن بن کر حکومت کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اس تنظیم کی کالعدم حیثیت کو ختم کرنے سمیت تمام مقدمات واپس لے گی اوراس کے کارکنوں کو رہا کرے گی ۔ حیران کن بات یہ تھی کہ مفتی منیب کبھی وزیراعظم سے ملے نہ انہیں ملاقات کی دعوت دی گئی ۔ مگرمذاکرات اور خفیہ معاہدے کے بعد ریاست نے ان کی ساری باتیں مان کر ہتھیار ڈال دیے۔اب ملک کے وسیع تر مفاد میں اس جماعت کی کالعدم حیثیت ختم کرنے کی ابتدائی منظوری دی گئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ ریاست کی طرف سے انتہا پسند کالعدم جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سوچ سے جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں ایسی جماعتیں خارجہ پالیسی کے ہتھیارکے طورپراستعمال کی جاتی تھیں تو اب انہیں سیاسی منظرنامے تبدیل کرنے کے لیے میدان میں اتاراجاتا ہے جس کا اصل نقصان جمہوریت اورسیاست کوہوتا ہے۔ افسوس مگر یہ کہ ریاست کی اس سوچ کے خلاف سیاستدانوں کی اکثریت نے بھی ہتھیارڈال رکھے ہیں
یہ بھی پڑھیے:
کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید
خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید
پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ