نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست مدینہ کا غلام رسول اور کانسٹیبل غلام رسول کی ریاست مدینہ||ڈاکٹر عبدالواحد

یہ سوال ان لوگوں کے لیے میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جو لوگ یہ سمجھتے اور سمجھاتے پھرتےہیں کہ ریاست مدینہ صرف کہنے سے قائم ہو جائے گی یاہوجاتی ہےتو کانسٹیبل غلام رسول کا بچہ یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ میرے باپ کو انصاف دلانے کے لیے ریاست مدینہ کب قائم ہوگی ؟؟

ڈاکٹر عبدالواحد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہے اسی دن سے وزیراعظم پاکستان جناب محترم عمران احمد خان نیازی صاحب نے اپنے سیاسی منشور میں ریاست مدینہ اور اس کے عدل و انصاف اور مساوات و برابری کی مثالیں سنانے اور قائم کرنے کا پرچار کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی تائید میں بڑے بڑے مذہبی اکابرین اور علماء بھی برسرِپیکار ہیں مگر یہاں ایک سوال بار بار جنم لیتا ہے کہ آیا عمران احمد خان نیازی واقعی ریاست مدینہ کے تصور سے آگاہ ہیں اور کیا اس تصور ریاست کو ریاست پاکستان میں عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں ان سوالات کے جوابات کے لیے پہلے ہمیں ریاست مدینہ کے عدل وانصاف کی اس مثال کو سامنے رکھناہوگی اور پھر عمران احمد نیازی سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ کیا ریاست مدینہ کا یہی تصور پاکستان میں بھی نظر آتا ہے.

وہ وقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا ۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی ۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا : تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا؟ اس نے کہا : میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا ۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی ۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا : کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے ؟ جبلہ نے کہا : ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے ، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا ۔

 حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے ، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا ۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا : کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو ۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا : کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟

 دیہاتی نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ تو دوسرے دن کچھ مسلمانوں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ ایک عام سے غلام رسول اور چھوٹی سی زیادتی کےسبب اتنا بڑا قبیلہ واپس عیسائیت کی طرف چلا گیا ہے۔ اس موقع پر امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تاریخی جملہ کہا جسے تاریخ سنہری الفاظ میں یاد کرتی ہے کہ اگر پورا ملک شام بھی اسلام چھوڑ کر مرتد ہو جاتا تب بھی میں اس مظلوم کی دادرسی کرتااور اسکو قصاص لےکردیتا۔

تو یہ تھی غلام رسول امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی ریاست مدینہ۔دوسری طرف چند بلوائی ریاست پاکستان کے اوپر حملہ کرتے ہیں اور اس کے دفاع کے لئے ایک کانسٹیبل غلام رسول اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے کچھ ہی دنوں بعد ریاست پاکستان ان بلوائیوں کو معاف کر دیتی ہے اور نا حق قتل ہونے والے غلام رسول کانسٹیبل کا خون بھی معاف کر دیتی ہےتو کیا ریاست مدینہ میں کسی کا خون اس کے اہل خانہ سے بغیر پوچھے ریاست معاف کر سکتی ہے ؟ یہ سوال ان لوگوں کے لیے میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جو لوگ یہ سمجھتے اور سمجھاتے پھرتےہیں کہ ریاست مدینہ صرف کہنے سے قائم ہو جائے گی یاہوجاتی ہےتو کانسٹیبل غلام رسول کا بچہ یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ میرے باپ کو انصاف دلانے کے لیے ریاست مدینہ کب قائم ہوگی ؟؟

ڈاکٹر عبدالواحد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author