دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فتوحات کے جشن میں ان خامیوں کو نہ بھولیں||محمد عامر خاکوانی

اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ دوسرے پول سے آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیمیں سیمی فائنل میں آئیں گی جب کہ ادھر سے پاکستان ان شااللہ پہنچے گی اور نیوزی لینڈ انڈیا کے میچ کی فاتح ٹیم کے آگے آنے کا امکان ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الیگزینڈر دی گریٹ تاریخ انسانی کے چند بڑے فاتحین میں سے ایک ہے، ہم اسے سکندر اعظم کے نام سے جانتے ہیں۔ سکندر کا طریقہ کار تھا کہ جنگ جیت لینے کے بعد وہ اسی شام عام فوجی لباس پہن کر لشکر کا چکر لگاتا۔مختلف خیموں کے باہر فوجی دائروں میں بیٹھے ہوتے۔ سکندر چپکے سے ان کے پاس بیٹھ جاتا، عام سپاہی بن کر حال احوال لیتا اور صورتحال کا جائزہ لیتا۔ دو تین گھنٹے لگا کر اسے اپنے تمام سپاہیوں کی حقیقی صورتحال کا اندازہ ہوجاتا۔

پھر سکندررات کو سب کو اکٹھا کر کے تقریر کرتا، ان کا حوصلہ بڑھاتا۔ جیت کی مبارک باد دیتا اور پھر کہتا کہ ہم فاتح ہیں، مگر فتح کا جشن ابھی نہیں منائیں گے، آج کی رات ہم جنگ کا تجزیہ کریں گے۔ کیا غلطیاں ہوئیں، کیا کام ٹھیک ہوا اور کون کون سے چیزیں مزید بہتر کی جا سکتی تھیں۔ کل سے البتہ دو تین دنوں کے لئے جشن ہوگا، لوگ کھائیں پئیں، مزے کریں، اگلی لڑائی تک اپنی تھکن اتاریں۔

وہ رات پھر سکندر اپنے فوجی مشیروں اور افسروں کے ساتھ مل کر تفصیلی میٹنگ کرتا، جنگ کے ایک ایک لمحے کا جائزہ لیا جاتا، غلطیوں، خامیوں کا تجزیہ، جو چیزیں ٹھیک ہوئی تھیں، ان کو سراہا جاتا اور پھر نصف شب کے بعد جا کر یہ میٹنگ ختم ہوتی۔

اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ سکندر کی ہرجنگ پہلے سے زیادہ بہتر اور عمدگی سے لڑی جاتی۔ اپنے اس بے رحمانہ محاسبے کی وجہ سے ہی نوجوان سکندر تاریخ میں سکندر اعظم یا الیگزینڈر دی گریٹ کہلایا۔ زندگی اسی کا نام ہے، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور خوبیوں کو مزید بہتر بنانا۔

کرکٹ کاسیز ن ہے، پاکستانی قوم دو بڑی فتوحات سے سرشار ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی ٹیم شروع ہی میں خوشیاں دے۔ عام طور پر ہماری ٹیم ابتدا میں میچز ہارتی اور جب ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا مرحلہ ہو، تب اچانک باؤنس بیک کرتی ہے۔ جتنی بڑی فتوحات ہم نے کرکٹ میں حاصل کیں، سب کا پیٹرن ایک جیسا ہی رہا۔

اس بار البتہ دو غیر معمولی کامیابیاں ہم نے ابتدائی دونوں میچز میں حاصل کر لیں۔ انڈیا کو ہرانا ہم سب کی دلی خواہش تھی اور نیوزی لینڈ کے شرمناک رویہ کے بعد انہیں ہرانا ایک طرح کی اخلاقی ذمہ داری بن گئی تھی۔ الحمدللہ دونوں کام ہو گئے۔

کرکٹ شائقین کے لئے یہ نہایت مسرت کے دن ہیں۔ قومی ٹیم کی مینجمنٹ اور کھلاڑی بھی یقینا خوش ہوں گے۔ انہیں اس کا حق پہنچتا ہے۔ ٹورنامنٹ مگر ابھی جاری ہے۔خوش ہونے کے ساتھ تجزیے اور اپنے محاسبہ کا وقت بھی ہے۔

سٹیو وا مشہور آسٹریلوی کرکٹر اور کپتان رہے ہیں۔ ایک بار ورلڈ کپ فائنل جیتنے کے بعد کمنٹیٹر نے ان سے پوچھا کہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ سٹیو وا ایک سنجیدہ صورت متین کرکٹر تھے، خاموشی سے کہنے لگے،”آج کے میچ میں ہم نے تین غلطیاں کی تھیں جن سے بچا جا سکتا تھا۔ ان کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ آئندہ یہ نہ ہوں۔“

چیمپین بننے کے لئے ایسا رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ ورلڈ کپ کے ان دونوں میچز میں ہماری کئی چیزیں بہت عمدہ ہوئیں۔ انڈیا کے میچ میں تو لگتا ہے ہر بات پلان کے مطابق ہوئی۔ نیوزی لینڈ کے میچ میں البتہ بعض چیزیں غلط ہوئیں۔، اگرچہ ان کا زیادہ نقصان نہیں ہوسکا اور ٹیم میچ جیت گئی، مگر میچ پھنسا ضرور۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔دو تین فیکٹرز ہیں جن پر غور کرنا ہوگا۔

اس وقت ہماری باؤلنگ لائن میں حسن علی کمزور لنک کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ حسن علی نے پچھلے ڈیڑھ سال میں شاندار کارکردگی دکھائی، مگر بدقسمتی سے ورلڈ کپ سے کچھ عرصہ قبل سے وہ آؤٹ آف فارم ہیں۔

ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں بھی حسن علی اچھے ٹچ میں نہیں رہے۔ ورلڈ کپ کے دونوں میچوں میں حسن علی اپنی مخصوص تباہ کن فارم میں نہیں تھے۔ پہلے میچ میں وہ سب سے مہنگے باؤلر رہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی انہوں نے ایک مہنگا اوور کرایا اور خوش قسمتی سے ولیمسن کو رن آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے، ورنہ شائد ان کے باؤلنگ فگرز زیادہ برے ہوتے۔

سب سے پریشان کن بات حسن علی کا نو بالز کرانا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں نو بال کرانا ایک طرح کا جرم ہے۔ ٹیم مینجمنٹ یقینا حسن علی پر کام کر رہی ہوگی، ان کا ردھم میں آنا بہت ضروری ہے۔ افغانستان کے بعددو نسبتاً کمزور میچز سکاٹ لینڈ اور نمیبا کے خلاف ہیں۔ حسن علی کو باہر بٹھانے کے بجائے اعتماد دینے کی ضرورت ہے، آخری دونوں میچز میں وہ وکٹیں لے کر اپنا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ باؤلنگ کوچ فلینڈر کو ان کی نوبالز پر توجہ دینا ہوگی۔

حارث رؤف نے غیر معمولی باؤلنگ کرائی ہے، مگر وہ بہت زور لگا کر نہایت تیز باؤلنگ کرا رہے ہیں۔ حارث جینوئن فاسٹ باؤلر ہیں، مگرآج کل اپنے کیرئر کی تیز ترین باؤلنگ کرا رہے ہیں۔ ایک اوور میں مسلسل کئی گیندیں 148کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کرانا آسان نہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں اپنے جوش وخروش میں وہ اہم میچز سے قبل ان فٹ نہ ہوجائیں۔ اس پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ شاہین شاہ اچھی فارم میں ہیں۔

وہ نئی گیند سے بھی عمدہ باؤلنگ کراتے ہیں اور ڈیتھ اوورز میں بھی خوبصورتی سے اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ بھارت کے خلاف ان کا آخری اوور اگرچہ مہنگا رہا۔شاہین شاہ تھرو کرتے ہوئے پینک ہو رہے ہیں، بھارت کے خلاف بھی انہوں نے اوور تھروکا چوکا لگوا دیا۔نیوزی لینڈ کے خلاف بھی ایک دو بار جوش میں تیز تھرو کی جو بمشکل پکڑی گئی۔ شاہین شاہ کو اس حوالے سے گائیڈ کرنے اور پرسکون رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

پاکستانی سپنرز نے دونوں میچز میں اچھی باؤلنگ کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بابر اعظم نے عماد وسیم کو اچھا استعمال کیا۔ ان سے ابتدا میں اوورز کا کوٹہ مکمل کرا لینا چاہیے، وہ رنز روکتے ہیں۔ شاداب خان کو ایک اوور میں تین چوکے پڑ گئے، مگر ان میں سے ایک دو چوکے روکے جا سکتے تھے، مجموعی طور پر شاداب نے اچھی باؤلنگ کی۔ محمد حفیظ نے اپنی روایت کے مطابق لیفٹ ہینڈ بیٹر کی وکٹ لی، حفیظ اگلے میچز میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔

پاکستانی بلے بازالبتہ نیوزی لینڈ کی سپن باؤلنگ کے خلاف پریشان نظر آئے اور پھنس کر کھیلتے رہے۔ یہ تشویشناک بات ہے۔ سوڈھی اچھے سپنر ہیں، مگر انہیں آسانی کے ساتھ ٹیکل کیا جا سکتا تھا۔ پاکستانی بیٹرز نے انہیں غیر ضروری طور پر بیک فٹ پر جا کر کھیلنے کے چکر میں نقصان اٹھایا۔ رضوان اور فخر دونوں نے ایک ہی طرح وکٹیں گنوائیں۔ بابر نے بھی سادھی کے خلاف ایک کمزور کراس شاٹ کھیلا۔ ایسی پچ پر سیدھے بلے سے کھیلنا چاہیے تھا، بابر شائد رن ریٹ تیز کرنے کے چکر میں غلطی کر گئے۔ بابر پر ٹیم بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، انہیں بہت زیادہ ذمہ داری سے کھیلنا پڑے گا۔

فخر کی اننگ مایوس کن تھی۔ اگلے میچ میں افغان سپنرز سے سخت مقابلہ ہوگا۔ مجیب الرحمن اور راشد خان کو کھیلنا قطعی آسان نہیں، محمد نبی بھی اچھے سپنر ہیں۔ ثقلین مشتاق اور ہیڈن کو پاکستانی بیٹرز پر کام کرنا ہوگا۔ بابر، رضوان اور فخر تینوں کو لیگ سپنرز سے اچھے طریقے سے نمٹنا چاہیے۔ شعیب ملک سپنر کو بہت اچھا کھیلتے ہیں، آصف علی کی اپنی تکنیکی کمزوریاں ہیں، مگر پچھلے میچ کی کارکردگی نے ان کا اعتماد بڑھایا ہوگا۔

محمد حفیظ کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ مثبت جارحانہ انداز سے کھیلے، آتے ہی پہلی گیند پر چھکا لگایا، پھر ایک دو اچھے شاٹ کھیلے۔ جس گیند پر آؤٹ ہوئے وہ غیر معمولی کیچ تھا، ورنہ محمد حفیظ نے اپنی طرف سے باؤنڈری لگا دی تھی۔ حفیظ کا فارم میں آنا بہت ضروری ہے۔

ورلڈ کپ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری مڈل آرڈر بھی اوپننگ کے ساتھ بھرپور حصہ ڈالے، ورنہ ٹارگٹ اگر کچھ بڑا ہو ا اور ٹیم پھنس کر کھیلی تو میچ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگلے میچز میں ٹاس بھی ہارا جاسکتا ہے۔ تب ڈیو فیکٹر میں سپنرز کو باؤلنگ کرانا ہوگی۔ گیلی گیند کے ساتھ اچھی نپی تلی باؤلنگ کرانا حارث رؤف کے لئے بھی امتحان ہوگا۔ اس کے لئے بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔

اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ دوسرے پول سے آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیمیں سیمی فائنل میں آئیں گی جب کہ ادھر سے پاکستان ان شااللہ پہنچے گی اور نیوزی لینڈ انڈیا کے میچ کی فاتح ٹیم کے آگے آنے کا امکان ہے۔

افغانستان کومگر ایزی نہیں لیا جا سکتا اور نہ دوسری طرف سری لنکا کو۔ پاکستان کے لئے بہرحال اس بار اچھا موقعہ ہے کہ سیمی فائنل اور پھر فائنل کھیلیں۔ اللہ کرے کہ سب چیزیں پلان کے مطابق ہوں تو ورلڈ کپ فائنل بھی جیتا جائے۔ اچھی اور بڑی ٹیمیں مگر غیر متوقع چیزوں کے لئے بھی تیار رہتی ہیں۔ٹیم پاکستان کو یہی کرنا چاہیے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author