نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خبر، خواہش، خار اور کالم ||عفت حسن رضوی

ناقدین کو مشورہ ہے کہ اگر کالم نگار اپنے الفاظ کے تیز دانتوں سے موضوع کی نبض دبوچ لے تو اسے داد دیں، نہیں تو تین گھنٹے کی وہ فلمیں دیکھیں جہاں ہیرو ہیروئن کا ملن ہو کے رہتا ہے، خواہ مخواہ خود کو بے مزہ نہ کریں۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں صحافی، میڈیا پریکٹیشنر اور سوشل میڈیا سٹارز کی نرسریاں مختلف ہیں۔ سب اپنی اپنی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

صحافت کی تعلیم میں مقامی اور عالمی فلسفہ، تھیوریز، تاریخ، صحافت کے آداب، تصدیق، اعدادوشمار، زبان و بیان، دستاویز، سیاست، جمہوریت اور صحافت کے بنیادی اصول نجانے کیا کیا سکھایا جاتا ہے۔ مشقی جہتیں بھی ہوتی ہے اور لکھنا، بولنا، سوال پوچھنا اور مواد کو نشر کے قابل بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل نیوز میڈیا میں لیکن نئی کھیپ صحافت کے آداب و اطوار سے ناواقف پروفیشنلز کی بھی آئی ہے جن کی اکثریت نے صرف میڈیا تکنیک سیکھی ہے جیسے کیمرا اور زبان چلانا یا پھر فیلڈ میں آ کر دیکھا دیکھی جو پلے پڑا وہی توپ چلانا۔ صحافت کا ازلی مقصد اس کا اخلاق و انداز کیا ہے ان کے لیے یہ سمجھنا ذرا مشکل ہے۔

یہ لیکچر یوں ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد لگ بھگ ہر دوسرے صارف کا دعویٰ ہے کہ وہ صحافی ہے۔ ہر یوٹیوبر خود ساختہ ماس میڈیا ماہر ہے، جسے چار لفظ جوڑنے آجائیں وہ بلاگ لکھ کر صحافی کہلانے پر بضد ہے۔ تو جب یہ ضد ہے کہ آپ کو صحافی لکھا اور پکارا جائے تو چند بنیادی چیزیں بھی سیکھ لینے میں کیا قباحت ہے؟

مثلاً یہ ہی فرق سمجھ لیں کہ کالم اور خبر میں فرق ہوتا ہے۔ یہ صحافت کی دو مختلف صفات ہیں، ان دونوں کا ٹارگٹ گرچہ عوام ہی ہیں مگر مقاصد اور ادائیگی یکسر مختلف ہیں۔

خبر کا بنیادی مقصد آگاہ کرنا، پیغام پہنچانا، اطلاع دینا، باخبر کرنا ہوتا ہے۔ جدید انداز سے کہیں تو صارف کو اپ ڈیٹ رکھنا ہی خبر کا اولین کام ہے۔

کالم خبر سے بہت بعد، بہت آگے کا درجہ ہے۔ کالم لکھنے والے کے تبصرے اور رائے پہ مبنی ہوتے ہیں، اس میں لفاظی، زبان و بیان کی ملمع کاری ہوتی ہے، ادب کی شرینی، طنز کی کڑواہٹ، لہجے کی کاٹ اور وقت کا نوحہ و مرثیہ ہوتا ہے، استعارے، اشارے کنائے ہوتے ہیں۔

مثلاً میں کالم میں یہ لکھوں ‘اے مٹھی بھر غیرت مند انسانو اب اٹھ کھڑے ہو’ تو کوئی موٹے مغز والا یا والی مجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ انسان مٹھی میں کیسے بھر سکتے ہیں اور اس سوال پہ وہ مجھے لاجواب بھی کرسکتا ہے۔

اگر ننھا دماغ اس قدر واسطوں، راستوں اور طریقوں سے کہی بات سمجھنے کے قابل نہیں تو اس بیچارے پہ اتنا زور نہیں ڈالا کرتے، جانے دیتے ہیں۔

خبر کا صرف ایک زوایہ ہے وہ ہے سچ پہ مبنی حقائق اور بس۔ اس کے برعکس کالم کے کئی زاویے ہوسکتے ہیں، کالم نگار کو آج کوا ہنس لگ رہا ہے ہوسکتا ہے کل وہی الو لگے۔ کالم نگار سراسر اینگلنگ کرتا ہے، کوشش کرتا ہے لوگ بھی وہی دیکھیں جو وہ دیکھ رہا ہے۔

خبر میں کب کیا کہاں کیوں کیسے کے جواب ہوتے ہیں، مگر کالم سوالوں پر مبنی ہوسکتا ہے، یہ خیالوں پر مشتمل ہوسکتا ہے، یہ خوابوں کو بیان کرسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کالم یہ جواب بھی دے کہ فلاں وزیر کے سر پہ کتنے بال ہیں۔

 کالم نگار کا زاویہ، نقطہ نظر درست ہے یا نہیں یہ نتیجہ اخذ کرنا قاری کا کام ہے۔ اس نتیجے کا بوجھ قاری کے کندھوں پر ہے کہ وہ اس زاویے کو تسلیم کرے نہ کرے۔ اگر قاری اس بوجھ کو سہنے کی تاب نہیں رکھتا تو وہ یوٹیوب پر کاکاٹو طوطوں کی ویڈیوز دیکھ سکتا ہے، جس معصومیت سے کاکاٹو مغلظات بکتے ہیں پیار آجاتا ہے۔

خبر پوری چھان پھٹک کے بعد خم ٹھونک کر، ڈنکے کی چوٹ پر نڈر ہو کہ دی جاتی ہے۔ نڈر تو کالم لکھنے والے کو بھی ہونا پڑتا ہے مگر اسے سہولت حاصل ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کی ناراضی سے بچ بچا کر غیر محسوس انداز میں موضوع کو چھو کر نکل جائے، کچھ بھی نہ کہے اور سب کچھ کہہ جائے اور چاہے تو بے باک لکھ کر توپوں کے سامنے جا بیٹھے۔

خبر ٹو دا پوائنٹ لٹھ مار ہوتی ہے مگر کالم میں لکھنے والا لطیف پیرائے میں بات گھما پھرا کر بھی قاری تک پہنچا سکتا ہے، اگر قاری کو ڈر ہو کہ کالم کی بھول بھلیوں میں وہ گھوم گیا ہے تو وہ لاحول ولا پڑھ کر کالم پڑھنا چھوڑ سکتا ہے۔

خبر کی زبان صاف، سادہ اور آسان ہوگی مگر کالم میں کالم نگار کی مرضی چلتی ہے کہ وہ ادبی انداز رکھے کہ صحافتی، فکاہیہ کالم لکھے یا نوحہ رقم کرے ، انداز طنزیہ ہو یا طربیہ، یا کچھ نہ لکھے بس سوالیہ تحریر ہو۔

کالم کے زبان و بیان کو سمجھنے کے لیے پڑھنے والے کا ادبی معیار ضروری ہے مثلاً کالم نگار امیر مینائی کی لائن لکھ دے ‘سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ’ اور پڑھنے والا بضد ہو کہ یہ ایک خاص شخصیت کو نشانہ بنایا گیا ہے تو لکھنے والے کے پاس اس ضد کا علاج نہیں۔ گویا داغ دہلوی کی طرح ‘کیا کہا میں نے آپ کیا سمجھے۔‘

ایک ہی خبر کا صارف سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوسکتا ہے اور تھڑے پہ بیٹھا رکشے والا بھی اس لیے خبر آسان فہم رکھی جاتی ہے کہ نوشتہ دیوار دونوں پڑھ لیں سمجھ لیں۔

مگر کالم کا صارف وہ ہے جس نے کالم نگار کی شخصیت، تحریر کا عنوان اور رائے کو جانچ کر پڑھنے کا فیصلہ کیا، یہ ارادی فیصلہ تھوپا نہیں جاتا اپنی پسند اور سوچ سمجھ سے لیا جاتا ہے۔

کوئی ڈنڈا لے کر نہیں بیٹھا ہوتا کہ دنیا بھر میں لاکھوں کالم روز چھپتے ہیں انہیں لازمی پڑھو، کالم جن احباب کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں وہ تحریریں اہل ذوق کے لیے چھوڑ دی جائیں تو بہتر، ہر جگہ منہ مارنا بھی ٹھیک نہیں۔

خبر جس تخت پر بیٹھی ہوتی ہے اس کے پائے سچ کی زمین میں گڑے ہوتے ہیں مگر کالم میں کالم نگار کی رائے اور تبصرہ ضروری نہیں کہ ہرسچ سے متفق ہو، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عین سچ ہو جسے ثابت کیا جائے۔

مثلاً کالم نگار یہ لکھ دے کہ ‘مرزا غالب کو آم پسند تھے مگر وہ نئے پاکستان میں ہوتے تو وہ بھی آموں سے توبہ کر لیتے۔‘ اس فقرے کو سچ ثابت کرنے کے لیے کالم نگار کو مرزا غالب واپس لانا پڑیں گے۔

کالم، رائے،تبصرے، تجزیئے، خبر اور تحقیقاتی خبر میں فرق صحافت کی بڑی بنیادی سی بات ہے جو کہ صحافت کے طالبعلم کو سب سے پہلی کلاس میں ذہن نشین کرائی جاتی ہے۔

وہ سوشل میڈیا پریکٹیشنرز جنہوں نے صحافت کی الف ب نہیں پڑھی اور کالم نگار سے کالم ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں مشورہ ہے خود پہ رحم کھائیں، کالم نہ پڑھا کریں۔

آخر میں مختصراً یہ بھی سمجھ لیں کہ خواہش خبر نہیں مگر کالم، تجزیوں کا حصہ ہوسکتی ہے، چند کالم نگار نئے پاکستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں، چند اس کی تعبیر سے ڈر بھی سکتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔

ایسے ہی کسی خاص شخصیت سے خار رکھنا خبر کو آلودہ کرسکتا ہے رپورٹر کی غیر جانبداری کو داغ دار کرسکتا ہے مگر کالم نگار کا موضوع ہی قومی اہمیت کی بلکہ یوں کہیے جمہوری اہمیت کی شخصیات ہوتی ہیں وہ انہی کے لتے لیتے ہیں، دل کے پھپھولے انہی پہ پھوڑتے ہیں۔

کالم نگار غیرجمہوری بڑی شخصیات کی کلاس تو لے لیں مگر افورڈیبلٹی کا مسئلہ رہتا ہے اس لیے مشہور شعرا کے کلام، اردو محاوروں، حکایتوں، روایتوں کی اوٹ سے کہا سُنی اچھی چل جاتی ہے۔

 تبصرے، تجزیے، آرا لکھنے والے کی پسند ناپسند، سیاسی، مذہبی، سماجی نظریے اور سمجھ بوجھ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ان سے غیرجانب دار رہنے کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے کہ شیر کو چیڑ پھاڑ سے، ہرنی کو رفتار سے اور چیتے کو شکار سے روکا جائے۔

 کالم کے ناقدین کو مشورہ یہی ہے کہ کالم نگار اگر اپنے الفاظ کے تیز دانتوں سے موضوع کی نبض دبوچ لے تو اسے داد دیں، نہیں تو تین گھنٹے کی وہ فلمیں دیکھیں جہاں ہیرو ہیروئن کا ملن ہو کے رہتا ہے خواہ مخواہ خود کو بے مزہ نہ کریں۔

یہ بلاگ  انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author