نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ رشید صاحب کو سلام!||احمد اعجاز

آپ کے حلقے کے پندرہ ہزار نوجوانوں کونوکریاں مل چکی ہوتیں بلکہ ملک کا کوئی نوجوان اس وقت بے روزگار اورملازمت سے محروم نہ ہوتا۔ہر ایک کو چھت میسر ہوتی
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ رشید بھی وزیرِ داخلہ ہیں۔یہاں ’’بھی‘‘ پر غور کی ضرورت ہے۔حالانکہ یہاں ایسی ہی کئی ’’شخصیات‘‘بڑے بڑے عہدوں اور وزارتوں پر براجمان رہی ہیں۔اس وقت بھی عثمان بزدار جیسی ’’شخصیت‘‘پنجاب کی سب سے بڑی مسند پر جلوہ افروز ہے۔لیکن اس کے باوجود میرے تئیں شیخ رشید وزیرِ داخلہ ہیں،جملہ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا،جب تک بیچ میں ’’بھی‘‘نہ ڈالا جائے۔یہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ایک ایسی جماعت جو پاکستان بھر میں صرف ایک حلقہ تک محدود ہے ۔ایک سیٹ کی بنیاد پر یہ ملک کے وزیرِ داخلہ ہیں۔
دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات کے بعد ،اِنھوں نے ایک بیان دیا تھا کہ ’’ہم بلے کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرنے والے ہیں‘‘ یہاں ’’ہم‘‘ سے مُراد میری سمجھ سے باہر تھی۔ اِنھوں نے الیکشن کے دوران یہ وعدہ کیِا تھا کہ جیت کر اور حکومت میں آکر حلقے کے پندرہ ہزار نوجوانوں کو نوکریاں دیں گے۔نیز اپنی زندگی کی سب سے بہترین سیاست کریں گے۔حلقے کے نوجوانوں کو نوکریاں تو نہیں ملیں لیکن اِنھوں نے اپنی زندگی کی بہترین سیاست ضرورکی ہے۔یہ بہترین سیاست ہی ہے کہ اپنی مرضی کی اعلیٰ ترین وزارت حاصل کرلی ہے۔
جب اوّل اوّل اِن کو ریلوے کی وزارت دی گئی ،تو یہ کچھ مایوس ہوگئے تھے۔ مایوسی کی وجہ یہ قراردی تھی کہ مَیں وزارتِ داخلہ لینا چاہتا تھا لیکن مجھے ریلوے کی وزارت دے دی گئی۔ یہ وزارت نہ لینے کی توجیح یہ بیان کی گئی تھی کہ ریلوے کا وزیر پہلے بھی رہ چکا ہوں۔یعنی وزارت پر فائز رہنا ،اِن کے نزدیک ذمہ داری سے زیادہ اسٹیٹس کو ،ہے۔ریلوے کی وزارت ملنے پر اِن کی جانب سے ریلوے کے نظام کو ٹھیک کرنے کے بلند و بالا دعوے کیے گئے ،مگر ایک دعویٰ تک پورا نہ ہوا۔دعوے پورے کیا ہونے تھے ،بڑے بڑے ایکسیڈنٹ ہونا شروع ہوگئے ،مگر مجال ہے کہ کسی ایک ریلوے حادثے کی ذمہ داری اِن کی جانب سے قبول کی گئی ہو۔
کیونکہ یہ تو ذمہ داری سے ’’مبرا‘‘ ہیں۔یہ تو ملک کا ایسا ’’اثاثہ‘‘ ہیں کہ اگر کسی اینکر کی ٹیلی ویژن سکرین کی رونق ماند پڑنے لگے اور اُس کی ’’مانگ‘‘ میں کمی آنے کا اندیشہ جنم لے اُٹھا ہو تو اِن کا انٹرویو کِیا جاتا ہے۔جناب تیار ہو کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جیسے سارے جہاں کا علم اِن کے سینے میں ’’دفن ‘‘ہے۔ نواز شریف اور زرداری کا مستقبل کیا ہے؟
میاں شہباز شریف آج کل کس شہر کے پھیرے لگاتے پائے جارہے ہیں؟ ن میں سے ش نکل چکی کہ نہیں؟اینکر کے ہر سوال کا جواب اِن کے پاس ہوتا ہے۔حتیٰ کہ یہ جوبائیڈن کے ،عمران خان کو فون کال نہ کرسکنے کی وجہ تک بتادیتے ہیں ۔مگر اِن کوپریس کانفرنس کے دوران صحافی کے اس سوال کہ ’’وزیرِ اعظم ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفکیشن کب کریں گے؟‘‘کا جواب معلوم نہیں تھا ۔ایک موقع پر آگے سے فرمانے لگے کہ یہ سوال وزیرِ اطلاعات سے پوچھیں۔جناب کو ویسے تو سارے سوالات کے جوابات ازبر ہیں۔حتیٰ کہ اُن سوالوں کے جوابات کی بھی تیاری کرتے رہتے ہوں گے ،جو اِن سے کبھی پوچھے بھی نہیں جائیں گے۔
لیہ کے ایک شاعر سے یہ بات منسوب ہے کہ وہ مطالعہ پاکستان کا پرچہ دے کر نکلے تو دوست نے پوچھا کہ ’’کیسا ہواپرچہ‘‘ترنت جواب دیا کہ ’’بہت خوب‘‘پھر ساتھ ہی گویا ہوئے ’’ قائداعظم کے چودہ نکات کی جگہ سولہ لکھ آیا ہوں‘‘ دوست نے حیرانی سے پوچھا’’ چودہ کی جگہ سولہ کیوں؟‘‘ بولے ’’اگر دوغلط بھی ہوگئے چودہ تو ٹھیک ہوں گے نا‘‘ وزیرِداخلہ اُس وقت پاک بھارت میچ دیکھنے چلے گئے ،جب لاہور کی سڑکیں یرغمال تھیں اور پنڈی و اسلام آباد کا زمینی راستہ بہت ساری جگہوں پر منقطع تھا۔ وزیراعظم نے بلالیا، سیدھے لاہور پہنچے اور تحریکِ لیبک سے مذاکرات کیے۔اِن کے نزدیک یہ ’’کامیاب‘‘ مذاکرات تھے۔اِن مذاکرات کی کامیابی یہ ہے کہ کنٹینر اپنی جگہ موجود ہیں،مسئلہ جوں کا تُوں ہے۔
پاک بھارت افتتاحی میچ کو فائنل قرار دیا اور جب ٹیم پاکستان نے یہ میچ جیتا تو ویڈیو پیغام جاری کیا اور اس کرکٹ میچ جیت کو اسلام کی جیت قرار دیا۔ ایسے ہی ’’وژن‘‘ والے کو وزیرِ داخلہ ہونا چاہیے تھا،جو کہ یہ ہیں۔ اگر یہ یواے ای میں رہ جاتے اور میچ دیکھ کر ہی اِدھر کو لوٹتے تو معلوم نہیں اس فتح کو کیا قرار دیتے؟شیخ رشید صاحب آپ بالکل ٹھیک ہیں ،مسئلہ ہمارا ہے کہ ہم غلط جگہ پیدا ہو گئے۔ ہمیں پیدائش کے جبر نے کہیں کا نہ چھوڑا۔آپ کو وزیرِ داخلہ نہیں وزیرِ اعظم ہونا چاہیے تھا۔آپ وزیرِ اعظم کی مسند پر ہوتے تو یقینی طورپر آج حالات ہی بہت مختلف ہوتے۔
آپ کے حلقے کے پندرہ ہزار نوجوانوں کونوکریاں مل چکی ہوتیں بلکہ ملک کا کوئی نوجوان اس وقت بے روزگار اورملازمت سے محروم نہ ہوتا۔ہر ایک کو چھت میسر ہوتی،ملک کے اندرکوئی ’’پراکسی‘‘نہ ہوتی۔ لیکن کوئی بات نہیں ،آپ خوب محنت کررہے ہیں۔یہ محنت ایک روز رنگ لائے گی اور آپ کو وہ سب کچھ ملے گا، جس کی آپ نے کبھی آرزو تک نہ کی ہوگی۔ہمارا کیا ہے؟ہم سڑکوں پر قبضہ کیے ہوئے کنٹینروں کے نیچے سے رینگ کر دوسری طرف گزرجائیں گے ، کھدی سڑک کے گڑھے میں گر کر ’’پار‘‘ ہو جائیں گے۔آپ بالکل پریشان نہ ہوں بلکہ پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ سے جیت چکی ہے، آپ اس جیت پر کوئی بیان کی تیاری کریں۔
ویڈیو بنائیں ۔ کالم کے آخر میں شیخ صاحب سے یہ پوچھنا ہے کہ اپنی زندگی کی سب سے بہترین سیاست کرچکے ہیں یا اگلے انتخابات میں کرنے کا ارادہ ہے؟اس کے علاوہ اگر اِن تک اس کالم کی ’’گونج‘‘پہنچے(جس کا کوئی امکان نہیں)تو ناراض مت ہوں۔بس یہ سمجھ لیں کہ یہ کالم ایک ایسے کالم نگار کی جانب سے لکھا گیا ہے ،جس کو ’’ریٹنگ‘‘کا مسئلہ درپیش تھا۔ ٭٭٭٭٭

 

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author