نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی کے مسئلے پر پی ڈی ایم کا احتجاج||ظہور دھریجہ

حالانکہ سرائیکی ادبی مجلس کا قطع اراضی مجلس کے نام وقف ہے ۔ یہ قانونی طور پر نہ تو کسی کو منتقل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتا ہے

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہنگائی کے مسئلے پر ملک بھر میں پی ڈی ایم کا احتجاج شروع ہو چکا ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مہنگائی خوفناک شکل میں سامنے آئی ہے ۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کے سلسلے میں حکومت کا فیصلہ سجھ سے بالا تر ہے۔ حکومت کیسے فیصلہ کرے گی کہ غریب کون ہے اور کس پٹرولیم مصنوعات میں سبسڈی دی جائے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حکومت ایک کے بعد ایک غلط فیصلہ کر رہی ہے ۔ اپوزیشن کا یہ کہنا کہ وزیراعظم کے پاس مہنگائی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے نہ اچھی ٹیم ہے، نہ ہی وژن اور نہ کوئی سمت ہے اور نہ اب تک کوئی بہتر فیصلہ کیا ہے۔ پٹرول ہر شخص کی ضرورت ہے ، حکومت کو کیا علم کہ گاڑی والا کیسا گزارا کر رہا ہے۔ بات صرف پٹرول کی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر پٹرول کو ہی دیکھا جائے تو حکومت پٹرول استعمال کرنے والوں میں تفریق پیدا کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر سہولت پیدا کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے۔ اس طرح یوٹیلیٹی سٹور کے حوالے سے بھی ایسی ہی کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ جب حکومت خود یوٹیلیٹی سٹور کی چیزیں مہنگی کر رہی ہے تو پھر سبسڈی کا کیا جواز بنتا ہے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سبسڈی کی رقم بھی با اثر طبقات اور بیورو کریسی کی جیب میں چلی جاتی ہے اور عوام کو دوہرے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے کہ خزانے سے جو رقم سبسڈی کے نام پر دی جاتی ہے وہ بھی غریب عوام کے محاصل ہوتا ہے ۔ اگر عام آدمی کا اتنا ہی احساس ہے تو قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان مہنگائی میں مسلسل ترقی کر رہا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان نے تین سال میں پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنا دیا ہے ۔ مہنگا ملک بننے کا سفر بہت تیزی سے جاری ہے ۔
دی اکامسٹ کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے تینتالیس ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے ۔ ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ مہنگائی کے مقابلے میں نقش بر آب کی مانند ہے ۔ مہنگائی کے مقابلے میں ترقی بلا وجہ نہیں ہے۔ حکومت کے مسلسل غلط فیصلوں سے ملک ایسی منفی فہرستوں میں شامل ہو رہا ہے۔ حکومت نے تین سال پورے کر لئے ہیں ، چوتھا سال شروع ہے ، چوتھا سال الیکشن کا سال ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں میدان میں اتر جاتی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو بتانے کیلئے حکومت کے پاس کیا ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے ، کساد بازاری کی بات بھی ہو سکتی ہے اور کورونا بھی ایک عذاب کی شکل میں سامنے آیا۔ مگر عوام پر جو قیامت ٹوٹی ہوئی ہے ، یہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ ایک طرف مہنگائی ہے ، دوسری طرف بیروزگاری ہے ، غریب لوگ جائیں تو جائیں کہاں ؟ مہنگائی کے علاوہ عمران خان کی حکومت لوگوں سے کیے گئے وعدوں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کر سکی۔ وسیب سے سو دن میں صوبے کا وعدہ ہوا تھا ، مگر تین سال گزرنے کے باوجود صوبے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔
صوبہ کمیشن تو کیا ، صوبہ کمیٹی بھی نہیں بن سکی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بار بار کہہ رہی ہے کہ حکومت بل اسمبلی میں لائے ہم حمایت کریں گے ، مگر حکومت بل لانے سے بھی گریزاں ہے ۔ حالانکہ یہ ٹیسٹ کا اچھا موقع تھا کہ صوبے کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں تو بل کی مخالفت پر وہ بے نقاب ہو جائیں گے ۔
اگر حکومت بل ہی پیش نہیں کرتی تو پھر وہ کس بنیاد پر وسیب کے ووٹروں کا سامنا کرے گی اور اس کو کیا جواب دے گی کہ ہم کس مجبوری کے تحت عوام سے کیے گئے وعدے کا پاس نہیں کر سکے۔ صوبے کے مقابلے میں حکومت نے سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا جو کہ اب تک لولی پاپ ہی ہے ۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ کل کے اخبار میں یہ خبر آئی کہ ہیلتھ کے محکمے کو بہاولپور اور ملتان کے نام پر مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ یہ بھی دیکھئے کہ موجودہ حکومت نئے ادارے بنانے کی بجائے پرانے ادارے بھی ختم کر رہی ہے ۔
اس پر وسیب کے لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں ۔ سابق وفاقی سیکرٹری حسین احمد مدنی کی قیادت میں بہاولپور میں سرائیکی ادبی مجلس بچاؤ کمیٹی قائم کی گئی ہے ، جس کے دو اجلاس ہوئے ۔ ایک اجلاس سابق سربراہ سرائیکی شعبہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر اور ایک اجلاس حسین احمد مدنی کی رہائش گاہ پر ہوا۔
اس موقع پر مقررین نے کہا کہ سرائیکی ادبی مجلس رجسٹرڈ بہاولپور سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کا ایک قدیم ادارہ ہے ۔ اس کے بانی پنجابی بولنے والے برگیڈیئر نذیر علی شاہ مرحوم تھے ۔ اس ادارے نے سینکڑوں مطبوعات شائع کیں اور سینکڑوں کی تعداد میں تقریبات منعقد کرائیں ۔ یہ ادارہ سرائیکی کے نام سے سہ ماہی رسالہ بھی شائع کرتا رہا ہے ۔
یہ آج کا نہیں نصف صدی کا قصہ ہے ۔ یہ ادارہ اکادمی ادبیات پاکستان اور وزارت اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب سے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لئے فنڈز بھی حاصل کرتا رہا ہے اور بہاولپور کی مقامی انتظامیہ کی سرپرستی میں اس ادارے نے بہت کام کیا ۔ بد قسمتی کہ مجلس کے عہدیداران کی چپقلش کی وجہ سے بہاولپور انتظامیہ نے سرائیکی ادبی مجلس کو چند سال پہلے سیل کر دیا ۔ اب سول سیکرٹریٹ کے لئے دفاتر کی ضرورت پیش آئی تو حکمرانوں کی نظر اس ادارے پر پڑی ، وہ اسے ختم کر کے یہاں دفاتر قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
حالانکہ سرائیکی ادبی مجلس کا قطع اراضی مجلس کے نام وقف ہے ۔ یہ قانونی طور پر نہ تو کسی کو منتقل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتا ہے ۔ یہ رجسٹرڈ ادارہ ہے ۔ اسے فوری طور پر بحال ہونا چاہئے ۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار ، وزیر بلدیات ، سیکرٹری بلدیات اور کمشنر بہاولپور کو اس پر ایکشن لینا چاہئے اور ادار ے کے خلاف ہونے والے اقدامات کو روکنا چاہئے ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے لسانی تنازعات کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔
خصوصاً ان حالات میں جب وسیب کے لوگ پلاک کی طرز پر سرائیکی ادبی ادارہ سلاک کے نام سے شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے راقم کی درخواست پر اس کی اصولی طور پر منظوری بھی دی ہوئی ہے تو لازم ہے کہ قدیم ادارے کو بھی بحال ہونا چاہئے اور نیا ادارہ بھی وسیب کو ملنا چاہیے ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author