عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں جن چند بڑے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا ان میں میر پور آزاد کشمیر کے پروفیسر الیاس ایوب کا نام اول اول اول ہے۔ آپ اگر پروفیسر الیاس کو نہیں جانتے تو یہ آپ کی کوتاہی اور غفلت ہے۔ ایسے لوگ تو تلاش کرنے چاہیں، ان سے ملاقات کرنی چاہیے ان سے زندگی کا سبق حاصل کرنا چاہے۔
چلیں آپ کو پروفیسر الیاس ملواتے ہیں۔ یہ بچپن سے نابینا ہے۔ روشنی کے کسی عکس کی یاد ان کے ذہن میں محفوظ نہیں۔ کوئی تصویر کوئی شبیہ کوئی خاکہ کوئی ہیولہ بھی ان کی بینائی میں نہیں اترا۔ اس کے باوجود جب آپ ان سے ملتے ہیں ان کے کارنامے سنتے ہیں ان کی داستان حیات سے آگاہ ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں کیسے کیسے ہیروں نے جنم لیا ہے کیسے کیسے جواہر اس ملک میں پوشیدہ ہیں۔ کیسی کیسی باعلم شخصیات ہم میں موجود ہیں اور ہمیں اس کا ادراک تک نہیں۔ آپ کو شروع سے ان کی کہانی سناتے ہیں۔
پروفیسر الیاس کی پیدائش انیس سو ستر کی ہے۔ نابینائی کی وجہ جنیٹک یعنی موروثی ہے۔ جن خاندانوں میں ایسی بیماری موجود ہو انہیں کزن میرج سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کی قانونی طور پر ممانعت ہونی چاہیے۔ پروفیسر صاحب نے ابتدائی تعلیم تو میر پور میں حاصل کر لی۔ بریل بکس کا رواج اتنا نہیں تھا اس زمانے میں۔ اس لیے ساتویں جماعت تک حافظے کی مدد سے امتحان دیتے رہے۔ ساتویں جماعت کے بعد سن رائز سکول لاہور چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد میر پور واپس آئے۔ میٹرک ایف اے اور بی اے وہیں سے کیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور آج بھی اپنے اعلی معیار کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ لیکن یہاں پر تعلیم کا سلسلہ موقوف نہیں کر دیا اس کے بعد اسلامک سٹڈیز اور سپیشل ایجوکیشن میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پی سی ایس کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے میر پور کالج میں ہی انگریزی ادب کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ابھی تک جو کہانی میں نے آپ کو سنائی ہے وہ اپنی ذات میں تو ایک کارنامہ ہے کہ کس طرح ایک شخص نے بغیر بصارت کے تعلیم کے سب مراحل طے کیے، کس طرح سہولیات کی کمی کے باوجود ماسٹرز کی تین ڈگریاں حاصل کیں، کس طرح نابینائی کے باوجود دوسرے شہروں کا سفر کیا، کس طرح بغیر کسی تعلیمی سہولت کے تعلیم کے سارے مدارج امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ لیکن پروفیسر الیاس کا اصل کارنامہ یہ نہیں ہے۔
ان کا اصل کارنامہ ”اکاب“ ہے۔ اکاب آزاد کشمیر ایسوسی ایشن آف بلائنڈ کا مخفف ہے۔ جس شخص نے تعلیم کے میدان میں بے پناہ مشکلات کا چیلنج قبول کیا ہو اس شخص کو دوسرے نابینا افراد کی مشکلات کا ادراک رہتا ہے۔ ”اکاب“ کی بنیاد بھی یہی جذبہ بنا۔ زندگی میں سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد زندگی کو دوسروں کے لیے وقف کر دینا بڑی سعادت کی بات ہے اور یہ سعادت پروفیسر صاحب کے مقدر میں لکھی گئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو پاکستان کے نابینا افراد کے لیے وقف کر دیا۔ ان کے پاس یہی ہر لمحہ موضوع گفتگو ہے۔ یہی ان کی زندگی کا مشن ہے اور یہی ان کا نصب العین ہے۔
اب آپ کو سناتے ہیں پروفیسر الیاس کے ادارے اکاب کی کہانی۔ اکاب کی بنیاد سن دو ہزار میں نہایت کم وسائل سے رکھی گئی۔ اس وقت اس ادارے میں ایک طالبعلم، ایک میز کرسی اور ایک ٹیچر ہوتا تھا۔ سن دو ہزار چار میں آزاد کشمیر حکومت نے اس ادارے کی خدمات دیکھتے ہوئے اس کے لیے زمین مختص کرنے کا اعلان کیا۔ سن دو ہزار دس میں یہ سکول دنیا بھر کے مخیر حضرات کے تعاون سے مکمل ہوا۔ اب تک اس سکول سے ایک سو پچاس طالبعلم تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اس وقت بھی اس سکول ایک سو و پچاس نابینا طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جو طالبعلم تعلیم حاصل کر چکے ہیں ان کے روزگار کے لیے بھی اکاب کے پلیٹ فارم سے تگ و دو کی گئی۔ ان کو سکالر شپ کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اب اس ادارے کے نابینا بچوں کے لیے ان کا اپنا کرکٹ گراؤنڈ ہے۔ نابینا بچوں کی کرکٹ ٹیم میں ان کے تین سے چار کھلاڑی شامل ہیں۔ یہی نہیں اکاب دنیا بھر کے آئی سپیشلسٹ کو بلوا کر آئی کیمپ بھی لگواتا ہے۔ آنکھوں کی بیماری پر ریسرچ بھی ہوتی ہے۔ نابینا بچوں کی تعلیم، رہائش، یونیفارم نہ صرف مفت ہے بلکہ ان کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم سے لے کر روزگار تک ان کے وظیفہ جاری رہتے ہیں۔ ان بچوں کو جنہیں معاشرہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ان بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
نابینا افراد کے لیے خدمات کے اعتراف میں پروفیسر الیاس کو آزاد کشمیر حکومت نے سن دو ہزار نو میں یوتھ ایوارڈ سے نوازا۔ سن دو ہزار میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس عطا کیا گیا اور سن دو ہزار اکیس میں حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز دیا۔ یہ تمغے بھی پروفیسر صاحب کا اصل کارنامہ نہیں ان کے اصل کارنامے کا ذکر ابھی کرتا ہوں۔
اس سماج میں نابینا افراد کے لیے کام کرنا ایک تھکا دینے والا کام ہے۔ بدقسمتی سے جس سلوک کا سامنا اس معاشرے میں نابینا افراد کو کرنا پڑتا ہے اس کے بعد ان میں زیادہ تر کی شخصیات مسخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ نہ ان میں اعتماد ہوتا ہے نہ کہیں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہوتا ہے نہ ان کی کوئی مدد کرتا ہے نہ ان کو کوئی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ پروفیسر الیاس نے ساری زندگی نابینا افراد کے لیے وقف کر دی۔ ان کی اپنی زندگی میں بھی بہت سی مشکلات گزری ہوں گی مگر اصل کارنامہ یہ کہ جب آپ ان سے ملیں تو ان سے زیادہ خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش مزاج اور مہمان نواز شخص آپ نے زندگی بھر میں نہیں دیکھا ہو گا۔ ان کے لہجے میں نہ ان تکالیف کی سختی ہو گی جو انہوں نے اپنی زندگی میں جھیلیں نہ یہ کبھی زمانے سے شاکی ہوتے ہیں۔ نہ ان کے شخصیت میں تاسف کا کوئی پہلو ہے نہ اداسی ان کو چھو کر گزری ہے۔ شخصیت کا اثبات ہی ان کا اصل کارنامہ ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو میری باتوں کا یقین نہ آئے تو میری آپ سے گزارش ہے کہ گوگل میپ پر ایک دفعہ اکاب میر پور لکھیں ان کے سکول کا وزٹ کریں۔ آپ کو خود علم ہو جائے کا زندگی کسے کہتے ہیں اور مجھے کیوں اتنا فخر ہے کہ پروفیسر الیاس ایوب میرے دوست ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر