دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎بے حیا عورتوں سے ملاقات!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہچکیاں، چیخیں، کراہیں! ہر سسکی اذیت کا سمندر ہے،ہر آہ اندوہناک ہے۔ ہر آنسو آتش فشاں کے لاوے کا وہ قطرہ ہے جو جہاں گرتا ہے، مٹی راکھ میں بدل جاتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم عورتوں کے ہجوم میں گھرے ہیں۔ مضمحل، تھکی ماندی، مضروب عورتیں …کرب و اذیت چہرے پہ نمایاں!

ہر کوئی ہمارا دامن پکڑ کے کچھ کہنے کی کوشش میں ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ اپنا درد کہہ ڈالے جو اسے مصلوب کیے ہوئے ہے۔ ہر عورت اپنا تعارف کروانا چاہتی ہے!

یہ عورتیں نہیں ہیں، زندہ لاشیں ہیں یا شاید مردہ کہانیاں!

آوازیں ہی آوازیں!

میں قبر میں مردہ بے جان حالت میں ریپ ہونے والی عورت ہوں!

میں ننھی بچی زینب اور فرشتہ کے روپ میں کوڑے کے ڈھیر پہ ملنے والی عورت ہوں!

میں جسمانی مار پیٹ سے مضروب عورت ہوں!

میں چولہے میں جلائی جانے والی عورت ہوں!

میں تیزاب سے منہ بگاڑ دی جانے والی عورت ہوں!

میں ذہنی اذیتوں سے پاگل ہو جانے والی عورت ہوں!

میں جنسی اعضا کو بجلی کی راڈ سے داغی جانے والی عورت ہوں!

میں گالیاں سن سن کے زندگی بتانے والی عورت ہوں!

میں طلاق کے بعد بچے چھین کے گھر سے نکالی جانے والی وہ عورت ہوں جو ساری عمر بچوں کی دید کو ترستے گزار دیتی ہے!

میں وڈیرے کے حکم پہ گینگ ریپ ہونے والی عورت ہوں!

میں گلیوں میں مختاراں مائی کی شکل میں ننگی گھمائی جانے والی عورت ہوں!

میں کاری کے الزام پہ گل سما کے روپ میں سنگسار ہونے والی عورت ہوں!

میں مرد کی بدکاریوں کے کا بدلہ ونی کی صورت میں قربان ہونے والی عورت ہوں!

میں کم عمر بچی ہو کے ادھیڑ عمر مرد کا وظیفہ زوجیت ادا کرنے والی عورت ہوں!

میں سکول کے دروازے بند دیکھنے والی ملالہ جیسی عورت ہوں!

میں جہیز نہ لانے پہ زدوکوب ہوتی عورت ہوں!

میں بچی پیدا ہونے پہ لعنت و ملامت کا شکار ہوتی عورت ہوں!

میں زچگی میں خون کا عطیہ نہ ملنے پر جان ہار جانے والی عورت ہوں!

میں حمل میں کھانا نہ ملنے پہ بھوک و پیاس کاٹتی ہوئی عورت ہوں!

میں زندگی کی سختیاں کاٹ کے بوڑھا ہونے پہ سوتن دیکھنے والی عورت ہوں!

میں بدکار شوہر کو برداشت کرنے کی ہدایت کے ساتھ زندہ عورت ہوں!

میں مرد کی جنسی بیماریوں کا شکار ہونے والی عورت ہوں!

میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کام کی اجازت نہ ملنے پہ گھر میں بٹھائی جانے والی عورت ہوں!

میں کما کے لانے کی صورت میں اپنی کمائی پہ بے اختیار عورت ہوں!

میں باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں ریپ ہوتی ہوئی عورت ہوں!

میں مذہب کے نام پہ جنسی اعضا کے ختنے ہوتی ہوئی عورت ہوں!

میں اپنے جسم کو اگر چادر میں نہ چھپاؤں تو چھونے اور ٹٹولنے دو کا حکم سننے والی عورت ہوں!

میں نکاح نامے میں طلاق کا حق نہ پانے والی عورت ہوں!

میں حق مہر کے نام پہ کچھ ٹکے پانے والی عورت ہوں!

میں سسرال میں خادمہ سمجھی جانے والی عورت ہوں!

میں ریپ کی صورت میں کہیں انصاف نہ ملنے والی عورت ہوں!

میں کھیتی بن کے شوہر کے جنسی تشدد کا شکار عورت ہوں!

میں شوہر کے حکم پہ سگے بہن بھائیوں سے قطع تعلق کرنے والی عورت ہوں!

میں اختلاف کی صورت میں جسمانی ایذا برداشت کرتی عورت ہوں!

میں قرآن سے شادی کروائی جانے والی عورت ہوں!

میں اغوا کے بعد ریپ ہو کے ماری جانے والی عورت ہوں!

میں کھیتوں میں پڑی لاش ہوں!

میں شک کی بنیاد پہ زندہ جلائی جانے عورت ہوں!

میں اپنی مرضی کے خلاف ہر برس بچہ پیدا کرنے پہ مجبور عورت ہوں!

میں مرضی کی شادی کی اجازت نہ ملنے پہ ساری عمر گھر بٹھائی جانے والی عورت ہوں!

میں بیوگی کے بعد بدکاری کا لیبل لگائے زندہ رہنے پر مجبور عورت ہوں!

میں خاوند اور اس کے بھائیوں کا مشترک جنسی مال ہوں!

میں اغوا کے بعد کوٹھے پہ بٹھائی جانے والی عورت ہوں!

کوٹھے پہ بوڑھی ہو کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرتی ہوئی عورت ہوں!

“بس کرو ، خدا کے لئے بس کرو”

ہم چیخ اٹھتے ہیں،

“ان کا کہنا ہے کہ تم بے حیا تھیں، تم با پردہ نہیں تھیں، تم فاحشہ تھیں فاحشہ!”

زینب اور فرشتہ سی ننھی بچیاں آگے بڑھتی ہیں اور معصوم آواز میں کہتی ہیں ،

“ یہ فاحشہ کون ہوتی ہیں؟”

ہجوم میں سسکیوں کا شور بڑھ جاتا ہے!

ہچکیاں، چیخیں، کراہیں! ہر سسکی اذیت کا سمندر ہے،ہر آہ اندوہناک ہے۔ ہر آنسو آتش فشاں کے لاوے کا وہ قطرہ ہے جو جہاں گرتا ہے، مٹی راکھ میں بدل جاتی ہے۔

ہم کانوں کو اپنی ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ ہمیں نہیں سننا کچھ بھی، یہ رنج و الم کے نوحے ہیں جو سنے تو خون جگر سے رقم بھی کرنا پڑیں گے۔

یہ کہانیاں تو درد کا وہ سمندر ہیں جس میں تیرنے والا ہی جان سکتا ہے کہ عورت کس طور زندگی کے امتحان دیتی ہے۔ امتحان لینے والوں کے پاس تاویلات کی کمی نہیں ہوتی اور تماشہ دیکھنے والے خوش نصیب جان ہی نہیں پاتے کہ جسم و جاں پہ کوڑے کھانے والی مضروب کس طرح زندگی کا پل صراط پار کرتی ہیں۔ وہ تو صرف تنقید کرنا جانتے ہیں، پنجرے سے باہر آسمان دیکھنے کی خواہش پہ تنقید۔ پدرسری معاشرے کے مروجہ اصولوں سے انحراف پہ تنقید۔

ہمارے اتنا کہنے پہ ہی دل زخم زخم ہو چکا، اب اور کہنے کی ہمت نہیں!

About The Author