نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فیض بمقابلہ ندیم ||عمید علی حجانہ

تعیناتی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی؟ یہ جاننے، سمجھنے کی کوشش جب بندہ ناچیز نے کی تو جو ابھی تک لگ بھگ 2 سے 3 ہفتے گزرنے کو ہیں یہ خود ساختہ نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کی منطق سمجھ آئی تو سوچا اپنی تحریر کے ذریعے کچھ لکھ ڈالوں۔

عمید علی حجانہ

………………………

یوں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے روز مختلف محکموں میں بھرتیاں اور تقرر و تبادلے معمول کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔ خبروں میں اکثر پڑھنے کو ملتا رہتا ہے کہ کسی فلاں تھانیدار کو کھڈے لائن لگا دیا ہے تو کبھی کسی پٹواری کو اس کے من پسند حلقے میں تعینات کرکے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔

لیکن دو ہفتوں سے زائد عرصہ گزرنے کو ہے کہ ایک ریاستی ادارے کے نئے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان خود ساختہ بحران کا شکار ہو گیا ہے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ دو ہفتے پہلے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریتی روایت کے عین مطابق نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لیے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا نام فائنل کرکے افواج پاکستان کے تعلقات عامہ آئ ایس پی آر کے ذریعے مین اسٹریم اور ڈیجٹل میڈیا پر اس تعیناتی کو خبروں کی زینت بناتے ہوئے قوم کو باخبر کردیا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کراچی سے اسلام آباد آکر اب بطور آئی ایس آئی کے سربراہ کے فرائض سر انجام دے کر ملکی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سالمیت، خود مختاری کی حفاظت دل و جان سے کریں گے۔

ریاست پاکستان میں معاملات اگر اس قدر سادگی سے طے پائے جانے لگے تو پھر کیا ہی بات ہے، لیکن یہ نئی تعیناتی جو کہ معمول کے مطابق ہو جانی چاہیے تھی مگر ابھی تک نہیں ہوئی۔

 تعیناتی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی؟ یہ جاننے، سمجھنے کی کوشش جب بندہ ناچیز نے کی تو جو ابھی تک لگ بھگ 2 سے 3 ہفتے گزرنے کو ہیں یہ خود ساختہ نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کی منطق سمجھ آئی تو سوچا اپنی تحریر کے  ذریعے کچھ لکھ ڈالوں۔

پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آرمی چیف نے جب لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا نام فائنل کرکے وزیراعظم عمران خان کو بھجوایا تو اس ہائبرڈ حکومت میں تو لاڈلے کو جی حضوری کرتے ہوئے جھٹ پٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے بندہ تابعدار کی مثال رقم کردینی چاہیے تھی۔ لیکن لاڈلہ جو ٹھہرا اس بار نت نئی فرمائشوں کے انبار لگا دیے کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید صاحب کے ساتھ زیادہ آرام دہ اور پر سکون ماحول میں ہوں۔ اسی لیے فیض قبول ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کا ندیم احمد انجم کراچی سے کچھ ماہ بعد آنے کی زحمت کرے۔ اب کون سمجھائے لاڈلے کو کہ زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر پھر واپس نہیں آتا، اب اگر افواج پاکستان نے جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس بنانے کی ٹھان لی ہے تو اب ندیم صاحب کا آنا اٹل ہے۔

لاڈلہ کو خیال آیا کہ آئین و قانون کے مطابق تو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن پر وزیراعظم کے دستخط ہونا لازمی ہیں اور وزیراعظم کی کرسی کے منصب پر تو 3 سال سے میں ہی چپکا ہوا ہوں تو اب مجھ سے دیکھتا ہوں کون زبردستی دستخط کرواتا ہے۔ لاڈلہ مزید جوشیلا ہوا تو ایک دو وزیراعظم آفس اور وفاقی وزراء کی کیبنیٹ میٹنگ سے بیان داغ دیے کہ اگر افواج پاکستان کی عزت ساکھ اور خود مختاری ہے تو وزیراعظم آفس کی بھی اپنی عزت ہے۔ یہ ڈائیلاگ بازی اب خان صاحب کو کتنی مہنگی پڑے گی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ادھر سے آرمی چیف بھی نے بھی لاڈلے اور وزراء جو کہ خود ساختہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے انہیں شٹ اپ کال دے دی۔ اب ظاہری بات ہے جو لائے ہیں اب انہیں ہی آنکھیں دکھاؤں گے تو نتائج تو شٹ اپ کال کی صورت میں ہی موصول ہوں گے۔

آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی کی تعیناتی آخر کیوں وزیراعظم اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کے لیے اتنی اہم اور پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اس کی ایک بنیادی وجہ بھٹو صاحب کا اپنی حکومت میں ایک جاری کردہ ایکزیکٹیو آرڈر ہے جس سے آئ ایس آئ میں باقاعدہ ایک سیاسی سیل کی تشکیل پا کر پولیٹیکل انجینئرنگ اور اپوزیشن کے رہنماؤں کی گرفتاریاں کرنا اور سیاسی وفاداریاں الیکشن میں تبدیل کروانا اور بھی بہت سارے سیاسی فرائض کی انجام دہی آئ ایس آئ سے لی جاتی تھی، جو کہ آج تک لی جارہی ہیں اور تا مستقل میں بھی یوں ہی لی جاتی رہیں گی۔ اس پر رؤف کلاسرا نے ایک کالم بھی لکھا بھٹو صاحب کا فیصلہ مہنگا پڑ گیا، جس میں انہوں نے بھٹو صاحب کو تنقید کا نشانہ بنا کر تصویر کا ایک رخ پیش کیا۔ تصویر کا دوسرا رخ یاروں کے یار لیہ کے لعل بھٹو صاحب کے سخت جیالے شفیق لغاری سے سمجھنے جاننے کا موقع ملا کہ بھٹو صاحب کا جاری کردہ ایکزیکٹیو آرڈر اس وقت کی شدید ضرورت تھی۔ بھٹو صاحب ایک روشن خیال اور سیکولر ریاست کے علمبردار تھے اور ان کی اپوزیشن میں سارے مذہبی رہنما تھے جو کہ بھٹو صاحب کو تنگ کررہے تھے، بھٹو صاحب سوشلی، اکانومی طور پر پاکستان کو ترقی کے راستے پر لے جارہے تھے اور مذہبی طبقہ ریاست کے تمام معاملات مذہبی طور طریقے سے انجام دینا چاہتا تھا جو کہ سراسر ریاستی امور کے ساتھ زیادتی تھی۔

ویسے بھٹو صاحب کے اس ایکزیکٹیو آرڈر کو آج کے دور حکومت کے سربراہ ایک اور ایکزیکٹیو آرڈر جاری کرکے ختم کرکے آئی ایس آئی کے سیاست میں کردار کو محدود کرسکتے ہیں، لیکن شاید کوئی سیاسی جماعت آج ایسا نہیں چاہے گی کیوں کہ ساری سیاسی جماعتوں کے سربراہ ووٹ اور عوام کے بجائے مفاہمت، بوٹ کی سیاست پر زور دیتے ہیں۔ اب پاکستان میں کوئی حکومت نہ بھائیوں کی مدد سے آ سکتی ہے نہ گرائ جاسکتی ہے، شاید یہ سب اب اس بدبودار سیاسی نظام کی اشد ضرورت بن گیا ہے۔ خیر باتوں میں پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل گئے لیکن ابھی تک نوٹیفکیشن کی گتھی نہیں سلجھ سکی، سننے میں آرہا ہے کہ ندیم انجام صاحب کراچی سے جی ایچ کیو لینڈ کر چکے ہیں اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ حالات و واقعات سے تو لگ رہا ہے کہ اسی جمعہ یا آنے والے سوموار تک لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر آبپارہ میں اپنی کرسی سنبھال کر قوم کو خدمت کا موقع دے کر اپنے احسانات کے بوجھ تلے دبا دیں گے۔

اے وی پڑھو:

طلبہ یونين بحال کرو۔۔۔عبدالہادی بلوچ

سرائيکی صوبہ ناگزیر کیوں۔۔۔عبدالہادی بلوچ

About The Author