رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نصرت بھٹو ! کہ سچائی جس کا میعار تھا اور نچلے طبقے سے جس کو پیار تھا ۔ دنیا کا کونسا ایسا سُکھ ھے جو اس نے دیکھا نہ ہو ، اسے ملا نہ ہو ؟ دنیا کا کونسا ایسا دکھ ھے جو اس نے جھیلا نہ ہو ؟ اور دنیا کا کونسا ایسا ظلم ھے جو اس پہ توڑا نہ گیا ہو ؟ اور پھر یہ بھی نصرت بھٹو ھی تھی کہ جس کو پاکستان کی تاریخ کی بد ترین اور خبیث ضیائی آمریت کا کوئی جبر جھکا نہ سکا۔ اس عہد میں شہرت، عزت ، جرات، بہادری اور وفا کا کونسا ایسا مقام ھے کہ جو بیگم نصرت بھٹو کو نصیب نہ ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔۔؟
نصرت بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو سے صرف پہلا پیار ھی نہیں کیا بلکہ اپنے محبوب ذلفی سے آخری سچ کہنے میں بھی کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خاص کر جب ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے ہٹنے ، بے ضمیر جاگیرداروں ، کم ظرف سرمایہ داروں اور کمینے ابن الوقتوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے طفیل اقتدار سے جیل جانا پڑا تو بیگم نصرت بھٹو سے جیل میں ملاقات کے وقت ذوالفقارعلی بھٹو نے قدرے جذباتی ہو کر پوچھا کہ ” لوگ باہر کیوں نہیں آ رھے؟ تو بیگم صاحبہ نے بِلا تامل کہا کہ ” ذلفی تم اپنے پیچھے کونسی بالشویک ( محنت کشوں کی عوامی اور انقلابی) پارٹی چھوڑ کے آئے ہو ؟”۔۔۔۔۔۔
زندگی بھر اقرباء پروری نہیں کی ۔ ایسی اقرباء پروری جس کا مقصد اپنے ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازنا ہو۔ ہاں البتہ ایسی اقرباء پروری ساری زندگی کرتی رھی کہ جس قرابت داری کا تعلق پارٹی کے عام کارکنوں یا ملک کے عام لوگوں سے تھا ۔ یہی وجہ ھے کہ ان کی ساری زندگی میں کرپشن، بد دیانتی، رشوت، چوری، قبضہ گیری، جھوٹ اور بے ایمانی وغیرہ جیسے جتنے بھی بدنما دھبے اور چھینٹے ہو سکتے ہیں ۔ ان سب سے بیگم نصرت بھٹو کا دامن صاف رہا ۔۔۔۔۔۔۔ بیگم نصرت بھٹو ! تجھے سرخ سلام
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ