نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اندرون سندھ جاو ورنہ گھر جاو کراچی کی خواتین اساتذہ کا مستقبل داؤ پر ||فہمیدہ یوسفی

سبجیکٹ اسپیشلسٹ کیڈر کے گریڈ 19 (پرنسپل/ ایسوسی ایٹ پروفیسر) میں ترقی پانے والوں میں کراچی ریجن کی 52 خواتین شامل ہیں ۔ لیکن حیران کن طور پر صرف 12 کو کراچی میں پوسٹنگ ملی جبکہ باقی خواتین کو اندرون سندھ پوسٹنگ دی گئی ہے

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے پچیس سال تعلیم کے شعبے میں ہوگئے ہیں خواب تھا میرا کہ میر ی ریٹائرمنٹ ہو تو میں گریڈ انیس میں ہوں لیکن جب  ہمارے محکمہ تعلیم سندھ سے پرموشن لیٹر آئے  اس کے ساتھ  یہ ہوش اڑادینے والی خبر  بھی سامنے آئی  کہ مجھے  پوسٹنگ کراچی میں نہیں  بلکہ سندھ کے دور دراز علاقے میں  دی گئی ہے اور یہ صرف میرے ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ مزید 38   خواتین بھی شامل ہیں یعنی کل 39  کراچی کی خواتین اساتذہ ہیں جن کو کراچی کے بجائے اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں میں پوسٹنگ دیدی گئی ہے ۔ آپ بتادیں گھر بار شہر چھوڑ کر  کس طرح دور دراز علاقوں میں ہم اکیلے چلے جائیں ۔

نام نہ بتانے کی شرط پر متاثرہ  خواتین ٹیچرز میں سے ایک نے بات کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ  کی جانب سے حالیہ سبجیکٹ اسپیشلسٹ کیڈر کے گریڈ 19 (پرنسپل/ ایسوسی ایٹ پروفیسر) میں ترقی پانے والے کراچی ریجن کے 28 مرد اور 39 خواتین اساتذہ کے اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں میں تبادلے کیے جارہے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق پروموشن لیٹر  پندرہ ستمبر کو  جبکہ پوسٹگ آرڈرز  چار اکتوبر کو جاری کیے گئے ۔

سبجیکٹ اسپیشلسٹ کیڈر کے گریڈ 19 (پرنسپل/ ایسوسی ایٹ پروفیسر) میں ترقی پانے والوں میں کراچی ریجن کی 52 خواتین شامل ہیں ۔ لیکن حیران کن طور پر صرف 12 کو  کراچی میں پوسٹنگ ملی  جبکہ باقی  خواتین کو اندرون سندھ پوسٹنگ دی گئی ہے

کراچی کی 39خواتین اساتذہ میں نائلہ امداد علی ،ریحانہ ایم صدیقی ،روبی ستار ،شاکرہ لطیف ،ریحانہ اشتیاق ،تسنیم فاطمہ ،کہکشاں روہی ،فرحت ایم علی ،مدیحہ ظہور ،رضوان ہاشمی ،خیر النساءمیمن ،کوثر پروین ،مسر ت صباء،انیلہ جمشید ،طاہرہ طلحہ ،عظمی گل ،نزہت فاطمہ ،رقیہ انصاری ،سیمی سلیم ،فوزیہ شیریں ،فرزانہ اقبال ،سعیدہ خالدہ حبیب ،فرزانہ سومرو ،ژروت جہاں ،حاجرہ فاطمہ ،یوسف النساء،طاہرہ عمران ،نادیہ میمن ،اسما صدیقی ،سلمی کنول ،رخشندہ جبیں ،سیما وارثی ،زیبا ناہید ،طلعت فاطمہ ،شہناد نصیر شامل ہیں

ذرائع نے  راوا نیوز کو بتایا بکہ محکمہ تعلیم نے کراچی کے مرد اور خواتین اساتذہ کو ترقی دیکر سندھ کے ضلع دادو،ٹھٹھہ ،بے نظیر آباد ،سانگھڑ ،نوشہرو فیروز ،لاڑکانہ ،جامشورو،خیر پور اور شہداد کوٹ میں پوسٹ  کر دیا ہے

حیران کن طور پر ایک ہی اسکول(اپوا ہائر سیکنڈری اسکول ) سے پانچ کی پانچ ایسوسی ایٹس کو جبری پوسٹنگ دیجارہی ہے ۔ جبکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ  ویسے ہی گورنمنٹ اسکولز میں پڑھائی کی کیا صورتحال ہے اور جب پانچ کی پانچ ایسوسی ایٹس کو ایک ہی اسکول سے پوسٹنگ دیکر بھیجا جارہا ہے تو طلبہ کی پڑھائی کا کیا ہوگا ۔

جبکہ ویڈ لاک پالیسی کے تحت تمام ادارے شوہر اور بیوی کو ایک ہی شہر میں پوسٹنگ کرنے کے پابند ہیں یاد رہے  ویڈ لاک پالیسی کے تحت میاں اور بیوی کو ایک ہی جگہ پر ملازمت کرنے کی پالیسی (ن) لیگ کے دور میں اپنائی گئی تھی۔ ویڈ لاک پالیسی وہاں اپنائی جاتی جہاں گنجائش ہو، اکثر اوقات جہاں گنجائش موجود ہو وہاں ایسے ملازمین کو ڈیپوٹیشن پر بھیجا جاتا ہے۔1998ء میں سابق وزیر اعظم  نواز شریف کی حکومت نے یہ پالیسی بنائی تھی، اس کے تحت خواتین کو اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے جہاں بھی گنجائش ہوتی ہے وہاں ضرور اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے۔

جبکہ پاکستان کے قانون میں موجود  آرٹیکل 25/3 اس بات کا محافظ ہے کہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا

خواتین اساتذہ کو شہر سے اندرون سندھ تبادلے پر تحفظات کے اظہار پر سختی سے اعلیٰ افسران کی جانب سے مشورہ دیا جا رہا ہے کہ انہیں حالات میں کام کریں ورنہ ریٹائرمنٹ لے لیں

اس سلسلے میں سیکریٹری تعلیم سندھ اکبر لغاری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم بارہا کوشش کے باوجود ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا دوسری جانب ترجمان وزیر تعلیم سندھ سعید میمن کا کہنا ہے کہ  اس سلسلے میں آپ  سیکریٹری سندھ سے بات کریں انہوں نے اس پر کوئی بھی موقف دینے سے انکار کردیا

اس سلسلے میں  متاثرہ خواتین اساتذہ  نے نام نہ بتانے کی شرط پر  انکشاف کیا  کہ

اندرون سندھ پوسٹنگز  کو لیکر ہم نے اپنے  تحفظات سے متعلق پہلی درخواست سیکریٹری تعلیم کو  6 اکتوبر کو دی تھی ۔ جبکہ ان کے ساتھ  براہ راست ملاقات میں متاثرہ خواتین اساتذہ   کے وفد نے ان سے  انسانی ہمدردی کی بنیاد پر درخواست کی  کہ  متاثرہ خواتین کو کراچی میں پوسٹنگ دی جائے  اس سلسلے میں سیکریٹری تعلیم نے نظر ثانی کا وعدہ کیا  اور کہا کہ متاثرہ خواتین اپنی جوائننگ ڈاک سے بھیج دیں۔

  متاثرہ خواتین  کے دوسرے وفد  نے چیف سیکریٹری سندھ کو اپنی درخواست  پیش کی  یہ درخواست سات اکتوبر کو دی گئی  جس پر چیف سیکیریٹری نے سندھ سیکریٹری تعلیم سے ملنے کا مشورہ دیا

سیکریٹری تعلیم سندھ کا سبجیکٹ سپیشلسٹ یونین کے صدر سے رابطہ ہوا  اور ایک بار پھر ان سے  خواتین کی اس پوسٹنگ کو  کراچی میں تبدیل کرنے کی گزارش کی  جس کے بعد  سیکریٹری تعلیم نے  متاثرہ خواتین سے ملاقات کی ان کے مسائل سنے اور ان  کے سامنے تین آپشن رکھے

آپشن نمبر ایک آپ لوگ جاکر جوائن کرلیں بعد میں ٹرانسفرز ہوجائینگے

آپشن نمبر دو اگر  جوائن نہیں کرنا تو  فار گو کردیں (فارگو کا مطلب اپنی پرموشن واپس کردیں   اور اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ فار گو کے بعد یہ ٹیچرز پروموشن کے لیے اہل نہیں رہینگے

آپشن نمبر تین کراچی پوسٹنگ کا انتظار کریں اور گریڈ اٹھارہ پر کام کرتی رہیں  جیسے جیسے  سیٹیں خالی ہونگی  پوسٹنگ دی جائیگی  اس عمل میں چھ سے آٹھ ماہ بھی لگ سکتے ہیں

ورنہ  امید ہے  کہ انیس گریڈ سے بیس گریڈ میں کراچی سے  چھ افسران کی ترقی ہوگی تو چھ سیٹیں خالی ہونگی  دو پرنسپل  تین مہینے ریٹائر ہوجائینگی  اس کے علاوہ تئیس اسکول کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے  اس میں SNE آجائیگا  تو پوسٹنگ ہوجائیگی  یہ سب اگلے بجٹ 2022 تک ہوجائیگا

خواتین اساتذہ کے اس سوال پر کہ  جوائننگ نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنی پرانی پوسٹ پر کیسے رہیں تو سیکریٹری صاحب نے زبانی ہدایت دینے کی بات کی لیکن تحریری طور  پر کچھ بھی دینے سے معذرت کرلی ہے ۔ جبکہ پوسٹنگ کیڈر دورانیہ  چھ سے آٹھ ماہ  بڑھانے کی بات کی ہے۔  خواتین کے ڈیپوٹیشن پر ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس پر پابندی لگارکھی ہے  کراچی  کے  33   ہائر سکینڈری اسکولز  میں ایس این ای بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگلے بجٹ میں دیکھا جائیگا

ذرائع کے مطابق سازش کے تحت گزشتہ 2 سالوں میں کراچی کے 33 ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سے 18 اور 19 گریڈز کی ایس این ای (S.N.E) اندرون سندھ منتقل کروائی گئی اس سازش کو عملی جامع پہنانے میں ا سبجیکٹ اسپیشلسٹ کیڈر کی ایک رجسٹرڈ یونین نے مرکزی کردار ادا کیا ہے

تعلیم بچاﺅ ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری عبد الرحمن خان نے کراچی ریجن سے بڑی تعداد میں مرد و خواتین اساتذہ کے تبادلے کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ سبجیکٹ اسپیشلسٹ کیڈر کی ایک رجسٹرڈ یونین کی کراچی کے اساتذہ اور طلبہ کیساتھ زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے اس جابرانہ اور ظالمانہ فیصلے کو کرتے ہوئے خصوصا” خواتین اساتذہ کے تحفظ اور حرمت کا خیال نہیں رکھا گیا کہ وہ کس طرح دور دراز علاقوں میں تنہا اپنے فرائض منصبی ادا کر پائیں گی؟ کیسے خود کو اجنبی ماحول میں مطمئن کر پائیں گی؟ اور کس طرح ہراسمنٹ سے بچ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے تعلیمی و تدریسی فرائض بحسن و خوبی ادا کر پائیں گی؟ ۔

 جبکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس اقدام کی شیدی مذمت کی جارہی ہے  ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ حکومت سے سوال کیا جارہا ہے کہ کراچی کی شہری خواتین کو کس لیے دربدر کیا جارہا ہے

ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد کراچی کے اساتذہ کرام کو در در کی خاک چٹوانے پر مجبور کرنا ہے تاکہ وہ اپنی نوکریاں چھوڑیں اور ان سیٹوں پر نئے سرے سے کاروبار کیا جائے۔

خواتین اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ  اپنی ترقی کو فارگو نہیں کرینگی کیونکہ  یہ ہمارا حق ہے  پچیس سال سے ہم تعلیم کے  شعبے میں ہیں  جبکہ اگر ہم نے  بروقت جوائننگ نہ دینے کی صورت میں تنخواہ جاری نہیں ہوگی جو ہمارا  معاشی قتل ہے

ہمارا مطالبہ ہے کہ خواتین کو ان کے آبائی شہر  کراچی میں ہی تعینات کیا جائے

1998 عدالتی فیصلے کے مطابق ہر خاتون کو اپنے شوہر کے رہنے کی جگہ پر ہی پوسٹ کیا جائیگا  اس لیے کراچی میں رہنا  ہمارا قانونی حق ہے

اس سلسلے میں ہم نے  جب ترجمان  وزیر تعلیم  سندھ کے ترجمان  سعید میمن سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سیکریٹری تعلیم محکمہ سندھ اکبر لغاری صاحب سے رابطہ کریں وہ بہتر جواب دے سکتے ہیں ۔

تاہم بارہا رابطہ کرنے کے باوجود سیکریٹری تعلیم سندھ اکبر لغاری صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

محکمہ تعلیم کے اس فیصلے سے کرا چی کے ہزاروں طلبہ نہ صرف سینئر اساتذہ سے محروم ہو جائیں گے بلکہ اس اقدام کوکراچی کے تعلیمی اداروں کے خلاف سازش بھی قراردیا جا رہا ہے

صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، وفاقی وزیر تعلیم، وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر تعلیم سندھ  کو اس معاملے کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے

کراچی  شہر کے المیے ویسے بھی کم نہیں ہیں  جبکہ  اس طرح  خواتین سینئر اساتذہ  کی حق تلفی  کوئی قابل  تعریف اقدام نہیں ہے   زیادہ بہتر تو یہ ہوگا کہ یہ  جبری تبادلے رکوائے جائیں تاکہ کوئی بڑا غیر اخلاقی المیہ پیدا نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author