افغانستان میں 20 سال بعد امریکا کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کا مکمل کنٹرول سنھال لیا ہے، جس کے بعد سے خواتین کے حقوق کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست کے بعد سے اب تک سیکنڈری اسکول کی طالبات کو کلاسوں میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ اس کے برعکس لڑکوں کے اسکول پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے دیگر سماجی کارکنوں کے ساتھ مل کر طالبان کے لیے ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں بچیوں کی تعلیم پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ملالہ نے مسلمان ممالک کے رہنماؤں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کو یہ بات واضح کریں کہ کوئی بھی مذہب لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔
ملالہ کے ساتھی کارکنان نے لکھا ہے کہ طالبان بچیوں کے لیے اسکوں کے دروازے بند کر کے انہیں صرف تعلیم سے محروم نہیں کر رہے بلکہ ان کے مستقبل سے بھی کھیل رہے ہیں۔
خط لکھنے والوں نے جی 20 کے عالمی رہنماؤں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ افغان بچوں کے تعلیمی منصوبے کے لیے فوری فنڈنگ فراہم کریں اور پیر پر اس خط کے ساتھ پٹیشن پر 7 لاکھ سے زائد لوگ دستخط کر چکے تھے۔
یاد رہے کہ ملالہ یوسف زئی اکتوبر 2012 میں اسکول وین میں فائرنگ کا نشانہ بنی تھیں جس کے بعد وہ لڑکیوں کی تعلیم کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے 2014 میں 17 سال کی عمر میں نوبل امن انعام جیتا۔
ملالہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی طالبہ ہیں۔ وہ اُن پناہ گزین لڑکیوں کی مشکلات کے بارے میں بین الاقوامی آگاہی بڑھانے کے لیے بھی کام کرتی ہیں جو غربت اور جنگ کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ