امجد قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتح اللہ خان (فرضی نام) سے سترہ سال پہلے اس وقت پہلی ملاقات ہوئی جب وہ جرنلزم کی ایک ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے کابل سے پشاور آیا۔ میں بھی اس ٹریننگ کا حصہ تھا۔ ٹریننگ کے پہلے دن ہی فتح اللہ کی بے باک پشتو شاعری نے تکلفات کی دیواریں گرا دیں۔
نائن الیون کے واقعے کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ لوکل میڈیا آہستہ آہستہ پنپ رہا تھا۔ اور خانہ جنگی کے بعد میڈیا کی بنیادیں رکھنے اور چلانے کے لئے تربیت یافتہ صحافیوں کی ضرورت تھی۔خطروں کے اس دور میں افغانستان میں شعبہ صحافت کا انتخاب کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ لیکن فتح اللہ نے سوچا کہ اس شعبے کے زریعے اپنے لوگوں کو صحیح معلومات پہنچا کران کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے ۔
فتح اللہ سے وقتا فوقتا رابطہ رہتا تھا ۔ کبھی دنوں بعد اور کبھی مہینوں بعد۔ اس دوران اس نے صحافت کے ساتھ ساتھ پڑھانا بھی شروع کردیا ۔ کابل میں حالیہ طالبان کے قبضے سے دو دن پہلے جب میں نے ان کے حالات جاننے کے لیے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اس وقت ان سمیت سینکڑوں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن اپنے پیشے اور اپنے خاندانوں کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہیں۔
گو کہ طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن فتح اللہ کے مطابق ایسے تمام لوگ جو میڈیا یا این جی اوز میں قومی یا بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کے گھروں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عالمی برادری کی جانب سے فوری اور ٹھوس اقدامات کے بغیر صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ ہزاروں افغان باشندوں کو طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا شدید خطرہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ دانشوروں، صحافیوں، سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو غیریقینی مستقبل کاسامنا ہے۔معلومات کے مطابق ایسے لوگوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے۔
خبریں دینے والے اب خود خبر بن چکے ہیں ۔ جو صحافی وہاں کام کر بھی رہے ہیں ۔ وہ اس وقت ذہنی بحرانوں کی زد میں ہوں گے۔ افغان عوام اس وقت معاشی مشکلات کے علاوہ صحیح معلومات کی کمی کا شکار ہیں ۔ انسانی بحرانوں میں معلومات کی کمی مزید بحران کو جنم دیتی ہے۔
طالبان ہوں ، امریکہ ہو یا برائے نام جمہوری حکومت، اس سارے معاملے میں شکست کھانے والے والے صرف اور صرف فتح اللہ اور ان جیسے ہزاروں سفید پوش ہیں جو نہ طالبان سے محفوظ ہیں۔ نہ وہ امریکی جہازوں کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ نہ وہ کسی امدادی ادارے کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں ۔ اور نہ ہی انہوں نے اتنا مال اکھٹا کیا ہوتا ہے کہ وہ کسی اور جگہ منتقل ہو سکیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ فتح اللہ اور اس کے خاندان کا کیا بنے گا۔ کیا وہ اور اس کے بچے کل کا دن دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ کیا کوئی ادارہ ، حکومت یا تنظیم انخلاٗ کا عمل مکمل ہونے کے بعد اب ان کو تحفظ دے گا یا نہیں۔
لیکن یاد رکھیں جنگ میں شکست ان کی ہوتی ہے ۔ جن کے بچے اور جوان ایک غیر یقینی مستقبل کی تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں ۔
کچھ سوچیے
(صحافی کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے )
یہ بھی پڑھیے:
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ گلزار احمد
ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اور دو خواتین کے سمارٹ فون۔۔۔ امجد قمر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر