رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو بے چاری کا عجب معاملہ ہے، نثر کے معاملے میں پیچھے رہی جارہی ہے۔ جسے دیکھئے غزل کہہ رہا ہے اور جیسے بھی بن پڑتا ہے، اپنے شعری مجموعے شائع کروا رہا ہے۔ نثر کے میدان میں افسانے اور ناول تو لکھے گئے لیکن شعر سے کم۔ تاریخ، تحقیق، سائنس، ادب اور تنقید پر کم ہی کتابیں لکھی گئیں۔کچھ لوگوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، کچھ نے اندر کی کہانیاں بیان کیں۔البتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ادھر اردو ادب میں سفرنامے لکھنے کا رواج فروغ پانے لگا اور کتنے ہی لوگوں نے آس پاس اور دور دراز کے سفر نامے تحریر کئے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سفر نامے تواتر کے ساتھ آرہے ہیں اور خوشی ہوتی ہے کہ اس بہانے نثر کا بھی بھلا ہورہا ہے۔ لیکن چونکہ تازہ سفر ناموں کی تعداد کم نہیں، ان پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔یوںتو یہ تنقید کرنے والوں کا کام ہے کہ بتائیں یہ کام صحیح ڈھب پر ہورہا ہے؟ سفر نامے اہتمام سے، قرینے اور سلیقے سے لکھے جارہے ہیں یا جس کے جو جی میں آرہا ہے، لکھ رہا ہے؟ کیا یہ طے ہوگیا ہے کہ سفر نامے کی حدود قیود کیا ہیں، اس کا دائرہ کتنا وسیع ہے، لکھنے والا کہاں تک جا سکتا ہے اور کہاں اسے رُک جانا چاہئے؟ اور آخر میں وہ ٹوٹکا جسے میں سب سے پہلا اور اہم عمل سمجھتا ہوں۔ کیا سفر نامے اور روزنامچے میں فرق کرنے کی ضرورت ہے؟بے شمار احباب صبح و شام کے کوائف لکھتے ہیں جنہیں آپ ڈائری یا روز نامچہ تو کہہ سکتے ہیں، سفر نامہ نہیں۔ایسی تحریریں میری نگاہ سے گزری ہیں جن میں ہوائی اڈے جانے کی تیاری سے لیکر سامان سوٹ کیس میں بند کرنے کی کارروائی اور پھر ٹریفک کے ہجوم میں ائر پورٹ پہنچنے کی روداد غیر معمولی تفصیل سے لکھی ہوئی تھی۔یہ توخیر ابتدائے سفر کی کیفیت تھی۔ پھر منزل پر پہنچے توکون کون لینے آیا تھا۔ کون اپنے گھر لے گیا۔ دوپہر کے کھانے میں کیا تھا اور بھابی جان نے ماش کی دال کس مہارت سے پکائی تھی اور یہ کہ صبح ناشتے کا مینیو کیسے تیار ہوا۔
ہمارے ایک مصنف کا دستور تھا کہ سفر پر روانہ ہوتے ہی سفر نامہ لکھنا شروع کردیتے تھے اور میزبان کے بچوں سے انگریز ی نظمیں سننے تک سار ا احوا ل اہتمام سے لکھتے تھے کہ نہ لکھتے تو نسلِ آدم کی تاریخ کا ایک باب ضبط تحریر میں آنے سے رہ جاتا۔ یہ اور کسی کے ساتھ ہو یا نہ ہو،اس بے چارے قاری کے ساتھ سراسر زیادتی ہے جو چار سو روپے خرچ کرکے کتاب گھر لے گیا ہے۔ہمارے ایک اور مصنف نے اقوام عالم کے کتنے ہی گوشوں کا سفر کرکے کتابوں پر کتابیں اس یقین کے ساتھ لکھیں کہ کوئی ان کی روداد کی تصدیق کرنے وہاں نہیں جائے گا۔ایک اور قابلِ احترام مصنف نے اس تواتر سے سفر نامے لکھے کہ انہوں نے اپنا قلمی نام مسافر رکھ لیا۔ وہ سفر کے دوران روز کا احوال اسی روز لکھ ڈالتے تھے اور آخر میں پورا پلندہ اپنے ادارے کو بھیج دیتے تھے برائے اشاعت۔ ان کی واپسی تک سفر نامہ شائع ہوچکا ہوتا تھا۔
پہلے پہل لوگ دور دراز علاقوں کا سفر کرکے روداد لکھتے تھے۔ حال ہی میں یہ نیا اور عمدہ چلن پڑا کہ اپنے ہی ملک کے گوشے گوشے میں جاکر اپنے ہی گھر کی کہانی کہہ سنائی۔ خاص طور پر ہمارے مہم جو سیاح جو اس کے ساتھ اہل قلم بھی تھے، بڑا کام کر گزرے۔ ان کے کارناموں کو سراہا جانا چاہئے۔ بعض احباب نے اپنے سفر ناموں کو سفر کی روداد سے بڑھ کر نثری ادب میں اپنا حصہ ڈالااور مسافت کی چاشنی میں زبان و ادب کے لطف کی آمیزش کی جو یقینا~ًقابلِ تعریف ہے۔
مغرب میں ٹریول بُکس لکھنے کا چلن عام ہے۔ وہ اسے ٹریولاگ کہتے ہیں اور بجا طور پر کہتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ جن دنوں ہماری طرف کا ہر شخص پیرس، لندن اور نیو یارک کے سفر نامےلکھ رہا تھاا ور ہم ایفل ٹاور کے قصیدے پڑھ پڑھ کر تھک چکے تھے، میں ہر ایک سے کہا کرتا تھا کہ کوئی ٹمبکٹو کا سفر نامہ کیوں نہیں لکھتا۔ ہمارے ہاں دور دراز علاقوں کی سیر کرنے کا رواج ہی نہیں اس لئے صحرائے اعظم کا سفر نامہ کوئی کیوں لکھے،منگولیا کا حال کوئی کیوں بیان کرے۔ لدّاخ کی مسلمان آبادی کا تذکرہ کوئی کیوں کرے؟ میں خود کو درمیان میں نہیں لانا چاہتا تھا لیکن یہاں پہنچ کر جو مثال ذہن میں آئی اسے بیان کرنے پر مجبور ہوں۔بیس بائیس برس پہلے جو میں پہلی بار افریقہ کے ساحل سے لگے ہوئے چھوٹے سے جزیرے ماریشس گیا تو میر ی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بالکل ہمارے جیسے لوگ، ہمارے جیسا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، ڈرامے کھیلنا اور غزلیں کہنا۔ اُس وقت میں نے کہا کہ سفر نامہ لکھنے کے لئے کرہّ ارض پر اس سے زیاد ہ مناسب مقام نہیں ہوسکتا۔اس پر میں نے ’جہازی بھائی ‘ کے نام سے سفر نامہ لکھا جسے پڑھ کر میرے بزرگ محمد خالد اختر مرحوم نے کہا تھا کہ میں نے اس سے بہتر سفر نامہ نہیں پڑھا۔
اس بیان میں کچھ مبالغہ اور کچھ محبت کی ملاوٹ تھی مگر بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ماریشس کے سفر نامے میں حیرت زدہ کرنے والے اتنے حقائق یک جا تھے کہ اس تبصرے کا جواز بنتا ہے۔ایک سفر نامہ ہی کیا، اکثر تحریروں کے بارے میں اس بات کو کلُیہ سمجھنا چاہئے کہ ان میں کسی بھی شکل میں تحیّر اور استعجاب ہو۔ وہ حیران کریں، ذہن کے کسی گوشے میں نئے چراغ جلیں اور اندر کہیں سے کوئی نئی کرن پھوٹے۔یہاں میں اپنے استدلال کو دو فقروں میں بیان کر سکتا ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سفر نامہ گھر کی دہلیز سے نہیں تو کہاں سے شروع ہونا چاہئے۔ میرا جواب ہوگا:سفر نامہ وہاں سے شروع کیجئے جہاں سے حیرت شروع ہوتی ہو۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ