رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیمی بورڈز کے نتائج ۔۔۔۔ مجرم نظام کے غیر محفوظ مستقبل والے بے گناہ بچے ۔۔۔۔ تعلیم کی تجارت مردہ باد !
آج پنجاب کے تقریباً سبھی انٹرمیڈیٹ بورڈز نے ایف اے/ایف ایس سی کے نتائج کیا اعلان کیا ھے ۔ نتائج کا سن کر یقیناً وہ سب بچے اور ان کے والدین انتہائی خوش ہونگے کہ جن کے بچوں نے نوے فیصد، پچانوے فیصد، ننانوے فیصد اور سو فیصد نمبر حاصل کئے ہیں ۔ ناک کی سیدھ میں دیکھنے اور چراغ تلے اندھیروں میں زندگی بسر کرنے والوں کیلئے یہ خوشی منانا ان کا حق بنتا ھے۔ مگر جو واقفانِ حال اور گزیدگانِ نظامِ زر (سرمایہ داری کے ڈسے ہوئے) ہیں۔ ان کیلئے 1100/1100، 1099/1100، 1098/1100، 1095/1100 اور 1090/1100 نمبرز تعلیمی اور سماجی انحطاط کے حوالے سے یہ نمبر دل دہلا دینے اور لرزہ براندام کر دینے والے نمبر ہیں ۔ بورڈز کے اعلان کردہ نتائج کی رو سے پنجاب کے ہر بورڈز میں نمبرز کی یہ گنگا بہائی گئی ھے۔ ان نتائج کے مطابق کسی بورڈ میں 1100/1100 نمبر لینے والے 48 بچے، کسی بورڈ میں 30 بچے، کسی بورڈ میں 24 بچے اور کسی بورڈ میں 12 بچوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی ھے۔ یہی حال دوسری اور تیسری پوزیشن لینے والوں کا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
اب اس درد ناک صورتحال میں جو سوالات اٹھتے ہیں ان میں یہ بے معنی سوالات شامل نہیں کہ بچوں میں میڈل یا انعامی رقم کس طرح تقسیم ہوگی؟ بلکہ یہ سوالات ہیں کہ کیا کوئی ایسا قانون یا ضابطہ موجود ھے کہ ان بچوں میں سے میڈیکل اور انجیئنرنگ میں داخلہ لینے والے بچوں سے انٹری ٹیسٹ لیے بغیر انہیں اگلے اداروں میں داخلہ دے دیا جائے؟ کوئی ایسی ضمانت ھے کہ نوے سے لیکر سو فیصد نمبر لینے والے بچے داخلہ/انٹری ٹیسٹوں میں فیل نہ ہو جائیں یا میرٹ پہ آ سکیں ؟ اس بات کی کیا گارنٹی ھے کہ ایسے داخلوں سے محروم رہنے والے بچے اور ان کے کفیل بوڑھے والدین یا سرپرست ذہنی طور پر مفلوج ہوکر مستقل پاگل یا ذہنی مریض نہ بن جائیں؟ اور اس بات کی کوئی گارنٹی ھے کہ ایسے داخلوں سے محروم رہ جانے والے بچے خود کشی کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں ؟ اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ ہو جائے تو اس بات کی کوئی ضمانت ھے کہ ایسے بچوں کے قتل کی ایف آئی آر ان بچوں کے والدین، اساتذہ، ٹیوشن اکیڈمی کے سربراہان اور ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف کٹوائی جاکر سب کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ بلکہ اس کی جگہ مبارکبادی کے پیغامات، دعوتیں، "یہ سب میرے اساتذہ کی محنت اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ھے ” اور "میں ڈاکٹر بن کر، انجنیئر بن کر، جنرل بن کر اور بڑا افسر بن کر قوم کی خدمت کرونگا” کے جیسے گھسے پٹے مجرمانہ جملوں کی ادائیگی اور پھر ہر شہر کے بڑے چوک چوراھے پر ان بچوں کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے کمرشل اشتہارات کی بھر مار ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ نتائج، یہ نظامِ تعلیم، یہ اساتذہ کی توہین(کیونکہ اتنا نمبر کوئی استاد نہیں لے سکتا)، یہ والدین کے ذہنوں اور جیبوں پر ڈاکہ ھے۔ یہ تعلیم کا بیوپار ھے۔ اور عظیم انقلابی استاد کامریڈ لال خان ” یہ روح کی اس غربت کی تجارت ھے کہ جس کے تحت غریب اور محروم والدین اس حسرت میں مبتلا ھیں کہ ھمارا بچہ کسی طرح ان ذلتوں سے محفوظ ہو جائے”۔۔۔۔
مگر کون نہیں جانتا کہ ان سب ذلتوں کو جنم دینے والا خود یہی نظامِ زر ھے اور اس کے گماشتے ہیں۔ حسرتوں کے قاتل اس نظامِ تعلیم اور غیر محفوظ مستقبل سے نسلوں کو بچانا ھے تو اس نظام ِ زر سےچھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ کہ بقول کامریڈ لال خان ” جو سب کو مارنے پہ تُلا ہوا ہو اسے سب سے پہلے مارنا چاہئیے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس قاتل نظام کی جگہ اس سوشلسٹ سویرے کو ابھارنا ہو گا کہ جس میں نہ صرف ہر سطح تک کی مفت تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوگی بلکہ تعلیم کی تجارت کی سزا، سزائے موت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم کی تجارت مردہ باد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طبقاتی نظام مردہ باد
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر