نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عذرِ گناہ بدتر از گناہ||ظہور دھریجہ

رازش صاحب نے کہا کہ میں اُن کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ان کو جواب دوں۔ میں نے کہا یہ آپ کی مرضی ہے، میں جواب دے رہا ہوں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب اکبرانصاری صاحب!
میں اپنی بات آپ کے پیراگراف نمبر4سے شروع کروں گا۔آپ نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے خون اور خمیر کے مطابق اندازِ تخاطب آپ، جناب اور صاحب کوبرقرار رکھا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کیسا خون اور خمیر ہے کہ اچھے کام کی مبارکباد دینے کی بجائے تہمتیں لگائی جائیں اور ”چ“ سے شروع ہونے والی چالاکی اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے من گھڑت تہمتوں کے بارے میں کہا جائے کہ وائس چانسلر یہ الزام لگا رہا ہے اگر جناب اور صاحب کہہ کر گند پھینکنا درست ہے تو یہ آپ کے خون اور خمیر کی سوچ تو ہو سکتی ہے میری نہیں۔
(1) آپ نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے ٹھوس شواہد پر استغاثہ کو دھونس اور دھمکی سے بٹھانے کیلئے پوسٹ لکھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ لکھ دیا کہ میں مستغیث نہیں ہوں۔ پہلے تو آپ بیٹھ کر ٹھنڈا پانی پیئیں اور پھر سوچ کر جواب دیں کہ آپ نے کیا کہا ہے۔استغاثہ بھی پیش کر رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں مستغیث نہیں ہوں۔
(2) آپ نے کہا ہے کہ میں نے تحقیقاتی کمیٹی کو Welcomeنہیں کیا۔ میں نے کب ویلکم نہیں کیا۔ میں تو ہر وقت حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے خون اور اپنے خمیر کے مطابق شیطانی حرکت کی اور میرے خلاف پوسٹ لگائی۔ یہ حملہ وہ کمینگی والا حملہ ہے جو سرائیکی دشمن اکرام زئی،انور قریشی، اشرف قریشی، چودھری بشیر بیتاب وغیرہ میرے خلاف کرتے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنی پارٹی کے چند شرپسند عناصرکی کذب بیانی کو آگے بڑھایا۔ اگر آپ میں سنجیدگی ہوتی تو فون کرکے میرا موقف لے لیتے۔
(3) آپ کہتے ہیں کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کا وائس چانسلر آپ پرالزام لگا رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہی تو تنازعہ ہے۔میں نے معلوم کیا تو یونیورسٹی سے مجھے بتایا گیا کہ آپ کے خلاف ایک حرف بھی نہیں کہا گیا اور یہ بھی غلط ہے کہ پاکستان سرائیکی پارٹی کے تین رکنی وفد نے وائس چانسلر سے ملاقات کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلیل بخاری نام کے کسی شخص کو ہم نہیں جانتے۔آپ کہتے ہیں کہ وائس چانسلر نے پاکستان براڈ کاسٹنگ ٹیم کے سامنے الزامات لگائے۔ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ ان الزامات کو سامنے لایا جائے۔ملاقات کی تصویر یا کوئی اور ریکارڈ سامنے لایا جائے۔ تاکہ میں وائس چانسلر کے خلاف استغاثہ دائر کر سکوں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ ٹیم الزامات آن ائیر کرنے سے گریزاں ہے۔ اس سلسلے میں میرے دو تین سوال ہیں۔
(الف) پاکستان براڈ کاسٹنگ ٹیم کے ارکان کے نام بتائے جائیں جو آن ائیر کرنے سے گریزاں ہیں۔
(ب) یہ بتایا جائے کہ کیا پاکستان براڈ کاسٹنگ کی ٹیم ہیڈآفس اسلام آباد سے آئی تھی؟۔
(ج) اگر اسلام آباد سے آئی تھی تو بتایا جائے کہ ٹیم کو وزیر اطلاعات نے بھیجا تھایا ڈی جی نے؟۔
(د) چونکہ رحیم یارخان میں براڈ کاسٹنگ آفس اور ریڈیو موجود نہیں کیا یہ لوگ ریڈیوپاکستان ملتان سے تھے یا ریڈیوبہاولپور سے؟۔
جناب اکبر انصاری صاحب! آپ نے پہلے سوالوں کے جواب بھی نہیں دئیے۔ اگر آپ موجودہ سوالوں کے جواب نہیں دیتے تو سمجھا جائے گا کہ الزامات وی سی نہیں آپ لگا رہے ہیں۔
(4) آپ نے لکھا ہے کہ پاکستان سرائیکی پارٹی اس تمام تر عمل میں متاثرہ فریق ہے۔میں نے کب فریق تسلیم نہیں کیا؟۔ اور میں کون ہوتا ہوں کہ کسی فرد یا جماعت کے کام کو تسلیم نہ کروں۔ البتہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مظاہرے کی محرک سرائیکی ایکشن کمیٹی اور اس کے چیئرمین راشد عزیز بھٹہ ہیں۔ میں ملتان میں تھا مظاہرے میں نہ پہنچ سکا۔مظاہرے کی دعوت مجھے راشد عزیز بھٹہ نے دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ جمعیت علماء اسلام رحیم یارخان کی قیادت بھی ہماری حمایت کر رہی ہے۔ مظاہرے میں پاکستان سرائیکی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے کامریڈ حیدر چغتائی شریک ہوئے جو کہ اچھی بات ہے۔ وائس چانسلر سے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی بات منوائی یہ بھی اچھا عمل ہے۔مگر میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میرے کھلے خط کے جواب میں یونیورسٹی رجسٹرار جناب اصغر ہاشمی صاحب نے مجھے فون پر آگاہ کیا تھا کہ وائس چانسلر صاحب نے آپ کا مطالبہ مان لیا ہے آپ ہماری دعوت پر یونیورسٹی آئیں۔ آپ کے آنے پر سرائیکی تعلیم کے آغاز کا اعلان ہوگا۔
پچھلے دنوں جب میں خان پور آیا تومیں نے اور راشد عزیز بھٹہ نے وائس چانسلر سے ملاقات کرنی تھی وقت طے ہو گیا۔ عین موقعہ پر راشد عزیز بھٹہ نے کہا کہ تعزیت کیلئے دوست آ رہے ہیں لہٰذا آپ وائس چانسلر سے خود مل آئیں۔میں نے ملاقات کی اور آڈیٹوریم میں منعقدہ تقریب میں جہاں یونیورسٹی کے ڈینز، پروفیسرز اور طلباء و طالبات موجود تھے میں نے سرائیکی میں تقریر کی اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے مطالبے کو دہرایا۔ سب نے خیر مقدم کیا۔
مجھے افسوس ہے کہ اکبر انصاری نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا اور سرائیکی حوالے سے ایک عظیم کام کو پراگندہ کرنے کے ساتھ سرائیکی تعلیم کے اجراء میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ میں بار بار کہتا آ رہا ہوں کہ بے بصیرت لوگ تخت لاہور، تخت اسلام آباد اور تخت پشور کے خلاف نبردآزماسپاہیوں کے پیٹ میں چھرا گھونپتے آ رہے ہیں حالانکہ ان بے شرم لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ جھگڑا سرائیکی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ قابض قوتوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے خلاف ہے۔
یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ایسا کرتے آ رہے ہیں۔ان لوگوں کی ایسی حرکتوں سے مجھے دہلی کی عالمی کانفرنس اور پونم اسلام آباد کا افتتاحی اجلاس یاد آ جاتا ہے کہ جو کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا میں شرمندگی سے بیان بھی نہیں کر سکتا۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ سرائیکی تحریک آگے کیوں نہیں بڑھ سکی،دو صدیاں بیتنے کے باوجود ہم قیدی کیوں ہیں تو فوراً میرے ذہن میں یہی مصرعہ آتا ہے کہ ”اساں قیدی تخت لاہور دے نی، ساکوں اپنیں گھانی وات ڈتے“۔
(5) جناب اکبر انصاری نے کتابوں کی بات ایک بار پھر دہرا دی ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جس ملاقات میں فہرست پیش کرنے کی آپ بات کررہے ہیں وہ ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ میری ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ اس موقع پر بھی میں نے کوئی فہرست نہیں دی۔بار بار کہہ رہا ہوں کہ ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔ گھٹیا باتیں کرکے گھٹیا پن کا مظاہرہ نہ کریں۔ گھٹیا پن کی حد تو یہ ہے کہ بے شرمی کے ساتھ کتابوں کی بات بار بار اس طرح دہرائی جا رہی ہے جیسے منشیات بیچنے کا ذکر ہو۔وہ بار بار رازش لیاقت پوری کا ذکر بھی لے آتے ہیں۔ جہاں تک رازش کی بات ہے تو وہ اپنی بات کا خود جواب دینگے۔ میں دو مرتبہ خواجہ فرید یونیورسٹی میں گیا ہوں اور رازش لیاقت پوری میرے ساتھ نہیں تھے۔اکبر انصاری صاحب کی پوسٹ لگنے کے بعد گزشتہ رات رازش لیاقت پوری صاحب کا فون آیا اورمیں نے ان کو بتایا کہ اس وقت کمپیوٹر پر جواب لکھوا رہا ہوں۔آپ اپنے طور پر ان کو جواب دیں۔ رازش صاحب نے کہا کہ میں اُن کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ان کو جواب دوں۔ میں نے کہا یہ آپ کی مرضی ہے، میں جواب دے رہا ہوں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author