نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کنواں ہی قبر بن جاتا ہے||احمد اعجاز

جب ہماری بیویاں یا مائیں یا بہنیں کھانا ہمارے سامنے چنتی ہیں تو ہم کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ایک زندہ انسان اپنا گوشت بھلا کیسے کھاسکتا ہے؟دِن بھر کا یہی ایک لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم روزانہ کی بنیاد پر کنواں کھودنے کی اپنے تئیں بھرپورسعی کرتے ہیں ،شام کے سائے ڈھلتے ڈھلتے ،ہماری کمر خمیدہ ہوجاتی ہے ،بازوئوں میں سکت دَم توڑ جاتی ہے ،ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے ہیں ،مگر پانی نیچے اور بہت ہی نیچے رہتاہے ،ہم باقی ماندہ سعی اگلے دِن پر چھوڑ کر گھروں کی اُور چل دیتے ہیں ،گھروں میں قدم پڑتا ہے توبیویوں کے چہرے اُتر جاتے ہیں ،مائوں کی آنکھیں بے بسی کے خیموں کا رُوپ دھار لیتی ہیں،ہم گھر کے کسی کونے کھدرے میں رات کی آغوش میں جاتے ہیں، خوابوں میں بھی کنواں کھودنا شروع کردیتے ہیں۔
سورج آنکھیں ملتا ہوا بیدار ہوتا ہے تو ہم اپنا بستر چھوڑ دیتے ہیں۔دُنیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں ،وہاں زیادہ تر گھروں میں صبح دَم افراتفری کا سماں جنم لے اُٹھتا ہے۔واش روم کی ٹوٹی کھلی رہتی ہے ،دھویں سے کچن اور شور سے گھر بھرساجاتا ہے۔پھر آہستہ بہ آہستہ گھر خالی ہوتا چلا جاتا ہے ،کنواں کھودنے والے کنواں کھودنے اور سکولوں ،کالجوں ،یونی ورسٹیوں کو جانے والے اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
ہمیں کنواں کھودنے کا فَن تعلیمی اداروںمیں سکھایا جاتا ہے ،مگر یہ سارا فن کتابوں کے صفحات سے زمین کاسینہ چیرنے والے بیلچے سے تعلق کا حامل نہیں ہوتا۔دونوں کے مابین فاصلہ ہمیں ہمیشہ ایک نئی کشمکش میں ڈالے رکھتا ہے ،تاوقتیکہ ہمارے ہاتھ بیلچہ پکڑنے سے پوری طرح واقفیت حاصل نہیں کر لیتے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ زمین کے جس حصے پر ہم کنواں کھودنے پر مامور ہوتے ہیں ،زمین کا وہ حصہ کنواں کھودنے والے کا نہیں ہوتا،یوں ہم عمر بھر دوسروں کی زمینوں پر دوسروں کے لیے کنواں کھودتے رہتے ہیں۔
یوں یہ کنواں ،کھودنے والے کے لیے محض گڑھے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس طرح ہمارے تعلیمی ادارے ہماری محتاجی کا بندوبست کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں۔ہماری مائیں ، بیویاں ، بہنیں اور بیٹیاں ،کنواں کھودنے میں مدد گار رہتی ہیں،اِن میں سے بعض تو خود کنواں کھودنے والیاں ہوتی ہیں ،مگر وہ بھی اپنے باپوں ،بھائیوں اور شوہروں کی طرح نامُراد ٹھہرتی ہیں۔ ہمارے باپ جب کنواں کھودنے کے قابل نہیں رہتے اور چارپائی پر آپڑتے ہیں ،تو اُن کے بیٹوں کے سینے کے بال سفید ہو رہے ہوتے ہیں۔اُن کی بیٹیوں کے میک اَپ کا سامان چوہے اپنے بِلوں میں چھپا چکے ہوتے ہیں۔
یہ دُنیا جہاں ہم رہتے ہیں ، ہمارے باپ مظلوم اور مائیں بے بس ہوتی ہیں۔ مائوں کی دُعائوں میں دُکھوں سے نجات کے وظیفے ہوتے ہیں اور باپ اپنے بچوں کے سروں پر اپنے کھردرے ہاتھ پھیرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہماری دادیاں ،نانیاں اپنے کانپتے ہاتھ ہمارے گالوں پر پھیرتے ہوئی کہتی ہیں کہ ’’خداتمہیں کسی کا محتاج نہ کرے‘‘مگر محتاجی یہاں کے خطے کے لوگوں کامقدر ہے ،بھیڑ وں کا ریوڑ ہے اور وہ ریوڑ کی ایک ایک بھیڑ کو بھیڑیوں سے بچاکررکھتے ہیں۔یہ خطہ محتاجی کی تاریخ رکھتا ہے۔
اس تاریخ سے ہماری دادیاں اور نانیاں گزرتی ہیں ،پھر وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوںکو گزرتے دیکھتی ہیں تو کانپ اُٹھتی ہیں ،اُن کے نحیف ہونٹوں سے یہ دُعا نکلتی ہے کہ ’’خداتمہیں کسی کا محتاج نہ کرے‘‘مگر یہ دُعا اُن کے نحیف ہونٹوں کی طرح نحیف ثابت ہوتی ہیں۔ ہم کنواں کھودنے کی ڈیوٹی سے پہلے کنواں کھودنے کی مشق کرتے ہیں۔ہم بھاگتے دوڑتے پانی کے چند چھینٹے منہ پر کوڑوں کی صورت مارتے ہیں اور بیکریوں کا رُخ کرتے ہیں، بیکری پر کنواں کھودنے والے ،بریڈ اورانڈے ہماری جانب اُچھال دیتے ہیں ،ہم تیزی سے پلٹتے ہیں اوربچوں کو سکول چھوڑنے نکل پڑتے ہیں۔
بچے بھاری بیگز اُٹھا کر سکول کے گیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو ہم کنواں کھودنے ،کنویں کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔سارا راستہ اندیشوں کے کیڑے وسوسے بن کر ذہن کو کاٹتے رہتے ہیں کہ اگر آج کنواں کھودنے کاکام نہ سونپا گیا تب…یہ جاننے کے باوجود کہ کنواں اپنا ہے اور نہ ہی زمین کا وہ ٹکڑا جہاں کنواں کھوداجارہا ہے۔جب بیلچہ ہمارے ہاتھوں میں تھمایا جاتا ہے تو پیچھے کہیں دُور سے بیویوں ،مائوں اور بہنوں کی آواز گونجتی ہے کہ شام کو پکانا کیا ہے؟کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ ہماری ہڈیوں کا جو سُرمہ بن چکا ہے ،اس کو ایک بارہی پکا لیا جائے۔پھر شام کو گھروں میں قدم رکھتے ہیں تو جب کبھی کچن سے گوشت کو لگائے گئے تڑکے کی خوشبو ناک میں گھستی ہے تو یوں لگتا ہے کہ ہماراہی گوشت پک رہا ہے۔
جب ہماری بیویاں یا مائیں یا بہنیں کھانا ہمارے سامنے چنتی ہیں تو ہم کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ایک زندہ انسان اپنا گوشت بھلا کیسے کھاسکتا ہے؟دِن بھر کا یہی ایک لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے ،لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنا آپ کھاتے ایک روز ختم ہوکر قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ جس کو کنواں سمجھ کر ہم ساری زندگی کھودتے رہتے ہیں ،ایک دِن معلوم پڑتا ہے کہ یہ تو قبر کا گڑھا تھا،جہاں ہم نے اُترنا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ کنواں کھودنے کا دُکھ (جب یہ معلوم پڑے کہ یہ قبر کا گڑھا تھا)کیا ہوتا ہے؟شاید آپ نہیں جانتے ۔
یہ صرف وہ جانتے ہیں جن کی دادیاں اور نانیاں اُنھیں محتاجی سے محفوظ رکھنے کی دُعائیں دیتی ہیں ،جن کے بچوں کو سفارش پر بھی اچھے سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا ،جن کے بوڑھے باپو ں اور مائوں کو سرکاری ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرش بھی بغیر جان پہچان کے میسر نہیں آتے اور جو کنواں کھودتے کھودتے قبر کے گڑھے میں اُتر جاتے ہیں۔اورجن کی مائوں کے آنکھوں کے کونوں سے آنسوبہہ بہہ کر مستقل نشان چھوڑجاتے ہیں۔ اس خطے کے بے نشان لوگوں کو جو محض کنواں کھودنے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں ،قبروں میں اوندھا لٹایا جائے۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author