زاہد گشکوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت حکومت آئندہ انتخابات میں اوور سیز پاکستانیز کی شمولیت کے معاملے پر نئے مجوزہ قانون پر اتفاق رائے کے حصول کیلئے کوشاں ہے اس وقت ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کے ذمہ دار اداروں کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اوور سیز ووٹنگ میں درپیش مسائل کے حوالے سے جیو نیوز نے پس پردہ کئی انٹرویوز کیے اور معلومات جمع کیں جن کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ وقت کی کمی نئے سافٹ ویئر کی تیاری، ووٹر کی پرائیوسی، مالی مشکلات اور اداروں اور سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اوور سیز ووٹنگ اور پوسٹل بیلٹ میں اہم رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کی کوشش کیخلاف تقریباً تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کی ہے۔
ترمیم کے ذریعے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرنے کا قانون پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، حکومت کے اقدامات کو الیکشن کمیشن نے آئین کی روح کیخلاف اقدامات قرار دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق، حکومت کی پیش کردہ ترامیم میں ووٹ کی رازداری، سیکورٹی اور مالی اخراجات کے حوالے سے کوئی بات پیش نہیں کی گئی اور ایسے معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے ضروری قانون سازی چاہئے جس کی غیر موجودگی میں اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ اس بات کی قانون سازی ضروری ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کیلئے علیحدہ نشستیں رکھی جائیں گی، پولنگ کا طریقہ کار کیا ہوگا اور بیرون ممالک پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے یا نہیں اور آیا کہ آن لائن ووٹنگ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ایک مجوزہ ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن پر پابندی عائد کی جا رہی ہے کہ وہ نادرا سے مدد نہ لے سکے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 220؍ میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے کیلئے تمام ریاستی اداروں سے مدد لے سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 62؍ مجوزہ ترامیم پر نظرثانی اور جائزے کیلئے اپوزیشن والوں کو دعوت دیدی ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ آئندہ الیکشن میں اوور سیز پاکستانیز ووٹ ڈالیں، یہ ہمارے لیے بہترین چوائس ہے، لیکن نون لیگ اور پی پی والے نہیں چاہتے کہ اوور سیز پاکستانیز اس عمل میں شامل ہوں کیونکہ یہ جماعتیں حمایت کھو چکی ہیں۔ دو بڑی جماعتوں نون لیگ اور پی پی نے نئے مجوزہ قانون کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے 62؍ میں سے 28؍ مجوزہ ترامیم کی حمایت نہیں کی۔
تاہم، سرکاری حکام سے بات چیت میں معلوم ہوا ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کیلئے اکتوبر 2023ء تک بروقت ووٹنگ سہولتیں فراہم کرنا الیکشن کمیشن اور نادرا کیلئے مشکل ترین کام ہوگا۔
انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی مشق کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر اکتوبر 2018ء کے ضمنی انتخابات میں کوشش کی گئی تھی جس کے نتائج حوصلہ افزا نہیں تھے۔177؍ ممالک میں مقیم 37؍ حلقوں سے 6؍ لاکھ 32؍ ہزار 233؍ اوور سیز پاکستانیز ووٹ کیلئے اہل تھے اور صرف 7364 (ایک فیصد) نے خود کو ووٹنگ کیلئے رجسٹر کرایا اور ان میں سے 6233؍ نے ووٹ ڈالا۔
اس سے قبل 2017ء میں سعودی عرب، برطانیہ، امریکا اور دبئی میں میں پاکستانی مشنز میں بھی ایسی ہی مشق کی گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن کو پوسٹل بیلٹ سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ووٹروں کی شرکت بھی انتہائی کم رہی۔
ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 60؍ فیصد نائیکوپ کارڈ ہولڈر اوورسیز پاکستانیز جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں وہ سب مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ای میل کی سہولت حاصل نہیں کہ وہ بیلٹ پیپر وصول کر سکیں۔
الیکشن کمیشن نے 2018ء میں آئی ووٹنگ کے پائلٹ پروجیکٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ووٹ کی رازداری مشکل ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی منسیٹ کمپنی کے انٹرنیشنل آڈٹ کی توثیق کی تھی کہ پاکستان کا موجودہ ووٹنگ سسٹم نامناسب ہے اور ووٹنگ کے عمل میں ووٹ کی رازداری کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔
ماہرین کو ڈر ہے کہ اگر پاکستان نے اوور سیز پاکستانیوں سے ووٹ ڈلوانے کا کام کیا تو اس سے مقدمہ بازی، دھاندلی کے الزامات اور الیکشن کے نتائج میں ہیرا پھیری کرنے جیسے لاتعداد الزامات سامنے آئیں گے۔ جرمنی، پولینڈ، نیدرلینڈز اور فرانس نے ای ووٹنگ سسٹم اپنے اپنے بیرون ممالک رہنے والے شہریوں کیلئے بند کر دیا ہے کیونکہ انہیں سائبر حملوں کا ڈر ہے۔
جرمنی اور پولینڈ کو سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے الیکشن کی شفافیت پر حرف آیا۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس کا کہنا ہے کہ 151؍ ممالک ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنے بیرون ممالک مقیم شہریوں کو ووٹ کا حق دیتے ہیں جبکہ 55؍ ممالک ایسا کوئی حق نہیں دیتے۔
گیلپ پاکستان کے بلال گیلانی کہتے ہیں کہ میرے اپنے ذاتی جائزے کے مطابق اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے بہت کم یا صفر اثرات مرتب ہوں گے حتیٰ کہ 80؍ لاکھ اوور سیز پاکستانیوں کی تعداد بھی غلط ہو سکتی ہے، یورپ اور خلیجی ممالک میں رہنے والے پاکستانی دو مختلف سمتوں میں رہتے ہیں۔
خلیجی ممالک والے پاکستانی اپنے کام کاج کے اوقات کار کی وجہ سے شاید ووٹ ہی نہ ڈال سکیں جبکہ ووٹنگ کا طریقہ کار بھی پیچیدہ ہے تو دوسری طرف مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانی پورے ووٹنگ کے عمل کو مذاق سمجھ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے شہری علاقوں میں ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ