نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نطشےکا خُدا مرگیا، شریعتی کےخُدا کی نمائندہ عورت ہے||وقار حیدر

ایک آئیڈیل انسان ہے جو کسی بھی الہامی خیر و شر سے ماورا خود اپنے اوپر بھروسہ کرکے زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہے۔ ساتھ میں یہ فوق البشر ہر طرح کے الہامی اخلاق کو بھی شدت سے رد کرتا ہے

وقار حیدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیوتاؤں کو ماننے سے انکار پر سقراط کو 399 قبل مسیح میں سزائے موت سنائی گئی اور اس نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے زہر کا پیالہ پیا تھا۔ بعد ازاں سقراط کے شاگرد افلاطون نے یونانی فلسفہ کو آگے بڑھایا اور ایتھنز اکادمی کا بانی قرار پایا۔ یوں تو جرمن فلسفی نطشے افلاطونیت کا انکاری تھا اور لکھتا ہے کہ کیا واقعی میسنا سقراط ہی افلاطون کے بگاڑ کا باعث بنا تھا ؟ کیا سقراط بہرصورت نوجوانانِ ایتھنز کو بگاڑنے والا اور زہر کے پیالے کامستحق تھا؟ لیکن بعد میں خود انہی کے زاویہ سے سوچتا ہے ،سقراط دیوتاؤں کا انکاری تو نطشے خدا کا ہی انکار کر بیٹھا وہ بھی اس حد تک کہ لکھا ” خُدا مر گیا ہے” نطشے سُپر مین کا تصور پیش کرتا ہے ۔

ایک آئیڈیل انسان ہے جو کسی بھی الہامی خیر و شر سے ماورا خود اپنے اوپر بھروسہ کرکے زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہے۔ ساتھ میں یہ فوق البشر ہر طرح کے الہامی اخلاق کو بھی شدت سے رد کرتا ہے۔ایک گال پر تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کرنے جیسی سوچ کو انسانیت مخالف درجہ دیتا ہے۔
نطشے افلاطونیت اور ویدیت سے خائف نظر آتا ہے : لکھتا ہے قدیم زمانے کے کسی معروف توہم (مثلاً روح سے متعلق ضعیف الاعتقادی جو فاعل/موضوع اور انا کے وہم کی صورت میں ہنوز بنائے فساد ہے) یہ بھی کہا ایشیا میں فلسفۂ ویدانت اور یورپ میں افلاطونیت میں موجود رہا ہے۔ چلیے، ہم ناشکری سے کام نہیں لیتے ، اگرچہ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آج تک ہونے والی خطاؤں میں سب سے زیادہ بری ، سب سے زیادہ تکلیف دہ ، اور سب سے زیادہ خطرناک بھول، ایک تحکم پسند غلطی ہے یعنی افلاطون کی ایجاد برائے خالص روح (پیور اسپرٹ)اور خیر فی نفسہ (گڈ ان اٹ سیلف)۔

جب علامہ اقبال جرمنی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تو خودی اور مومن سے نطشے کا فوق البشر جھلکتا نظر آتا تھا۔ اقبال کے مرد مومن نے نطشے کے مرد کامل سے تھوڑا بہت اثر ضرور لیا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

شاید اسی لیے اقبال یہ بھی فرما گئے ہیں کہ نطشے ایک کافر ہے جس کا دل مومن ہے۔ لیکن اس کے برعکس نطشے اپنی بہن کو لکھے خط میں کہتا ہے” وعدہ کرو کہ میرے مرنے ک بعد صرف میرے دوستوں کو میرے تابوت کے قریب آنے کی اجازت دو گی اور عوام کو میری لاش سے دور رکھو گی کیونکہ وہ خواہ مخواہ ہر بات کی کرید کرتے ہیں اور دیکھنا کوئی پادری، یا کوئی اور شخص میری قبر پر کھڑا ہو کر جھک نہ مارے کہ میں اس وقت مدافعت نہ کر سکوں گا۔ میں کافر اور مشرک ہوں۔ اور اسی حیثیت سے مجھے قبر میں اتار دینا”۔

لیکن پھر اقبال اسی خودی کو اسلام کی مرکزی حیثیت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
نطشے ایک عرصہ تک یورپی فلسفہ کے متاثر نوجوانوں کے ذہنوں پر نقش رہا یہاں تک کہ علی شریعتی فلسفہ کے میدان میں وارد ہوئے ۔ شریعتی بھی صوفیوں کے وحدت الوجود کے عقیدے سے خود کو الگ کرتے ہیں اور اس چیز کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں (وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے)۔

ڈاکٹرعلی شریعتی نےخدا کا نیا تعارف کرایا۔علی شریعتی نے بتایا کہ قاتل قابیل، نمرود اور فرعون نے ہمیشہ خُدا کے مقابلے پر آکر خدا کی مخلوق پر ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جس کو یونان نے یوں تعبیر کیا کہ خُدا ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو وہ اپنی مخلوق پر جاری ظلم کو روک نہیں سکتا۔ لیکن علی شریعتی نے اپنی کتاب ” ہاں دوست ایسا ہی تھا” میں اس سارے ظلم کی داستان رقم کی جو مردہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کو بچانے کیلئے ڈھائے گئے۔اہرام مصر کی تعمیر میں 30 ہزارغلام جو 1 ہزار میل سے ان پتھروں کو کھینچ کر لانے پر لگائے گئے تھے،ان میں سے روزانہ سینکڑوں اسی بھاری بوجھ تلے دب جاتے تھے ۔
اسوان سے قاہرہ تک غلاموں کو پتھر لانا پڑتے تھے تاکہ 3 بڑے اور 6 چھوٹے اہرام بنائے جا سکیں اور اس عمارت میں فرعون کی حنوط شدہ لاش محفوظ کی جاسکے۔ اندر قبر سنگِ مرمر کی 5 سِلوں سے تیار کی گئی تھی۔ان میں سے 4 سلوں سے قبر کی دیوار بنی اور 1 سل قبر کے اوپر رکھی گئی۔ قبر کے اُوپر اس مر مر کی سِل کے حجم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی سل پر لاکھوں پتھر ایک کے اوپر ایک سجائے گئے۔ یہاں تک کہ اہرام کا بالائی سرا مکمل ہوا۔ اور 5 ہزار سال سے یہ سل ان سارے بلاکوں کا وزن سنبھالے ہوئے ہے۔

مشہور فلسفی نطشے عورت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں”عورت کی محبت میں ہر اس چیزکےخلاف ناانصافی اوراندھا پن شامل ہوتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی،عورتیں دوستی کےقابل نہیں، وہ محض بلّیاں اور زیادہ سے زیادہ گائیں ہیں۔
لیکن دیکھیے شریعتی کیسے عورت کو بطور نمائندہ پیش کر رہےہیں۔شریعتی لکھتا ہے کہ اللہ جل جلالہ، اپنی الوہیت میں لا شریک ہے۔ اس کو کسی کی حاجت ہے نہ ضرورت پھر بھی اپنی کروڑوں مخلوق میں اس نے انسان کو منتخب کیا۔
سارے انسانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عورت کو
ساری عورتوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کنیز کو
سارے غلاموں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کالی حبشی کنیز کو
ہاجرہ ایک عورت، مفلس، حقیر، حبشی کنیز، سارا ؑکی کنیز۔ انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں یہی کچھ اس کی خصوصیات ہیں۔ کفر کے معاشرے میں وہ بس اسی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ مگر توحید کے معاشرے میں اس کی حیثیت کچھ اور ہے۔ یہ کنیز اللہ سے مخاطب ہے، اولو العزم پیغمبروںؑ کی ماں ہےاوراللہ کے بہترین اور محبوب بندوں کی نمائندہ ہے۔ اللہ کے گھر میں وہ واحد عورت ہے۔ایک ماں!۔

نطشے اور شریعتی میں فرق صرف اتنا ہے کہ نطشے خُدا و مذہب اور توہم پرستی کا منکر ہے جبکہ شریعتی مذہب پرستوں سے خائف ہے۔ شریعتی مذہب شناس اور بیدار لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مرد، ٹھرک، صنف نازک اور معاشرہ ۔۔۔وقار حیدر

ٹک ٹاک ۔۔۔ لیکڈ ویڈیوز کا نیا پلیٹ فارم ۔۔۔وقار حیدر

دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا اب کوئی نہیں کہتا۔۔۔وقار حیدر

وقار حیدر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author