رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی جان کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ہرہَما شُما سے نہیں، کہیں کوئی انسان مل جائے تو اُس سے پوچھئے۔ مشکل نہیں، بے حد مشکل سوال ہے۔ وہ بھی اُس معاشرے میں جہاں کوئی درندہ صفت انسان گلی میں کھیلتے بچوں کو اٹھا لے جاتا ہے ، جی چاہتا ہے یہ داستان اس سے آگے نہ کہوں کہ دل پہلے ہی اتنے گھاؤ کھاچکا ا ور اتنے زخم اٹھا چکا ہے کہ چھلنی ہوا جاتا ہے۔
مگر میں باز نہ آنے کا اور اس سوال کا جواب دے کر رہوں گا۔ جانتا ہوں اس سے کسی کی آنکھیں نہیں کھلیں گی، مگر مجھے کیا ۔ نہیں کھلتیں تو نہ کھلیں، میری بلا سے۔پہلے یہ سنئے کہ کیا سبب ہے کہ قیامت آنے میں دیر لگا رہی ہے۔یہ قصہ یوں ہے: ابھی کچھ روز ہوئے ، آسٹریلیا کے کسی جنگل کے قریب رہنے والے ایک کنبے کا تین سال کا بچہ کھیلتے ہوئے گھر سے نکل کر جھاڑیوں میں چلا گیا۔ پھر کیا ہوا کہ وہ چلتا ہی گیا۔تین برس ہی کا تو تھا۔ اپنی دانست میں وہ گھر کی طرف چل رہا تھا مگراسے اندازہ نہ تھا کہ وہ گھر ، بستی اور آبادی سے دور ہوتا جارہا تھا۔کچھ دیر بعد گھر والوں کو احساس ہوا کہ بچہ غائب ہے۔ کونا کونا دیکھا گیا ، محلے میں شور مچا ۔ بستی میں ڈھنڈورا پِٹا۔لوگ گھروں سے نکل آئے یہ کہتے ہوئے کہ بخدا ہم نے نہیں دیکھا، ہمارے ہاں نہیں آیا، یہیں کہیں ہوگا۔ مگر وہ تو گھنے جنگل میں جا چکا تھا اور چلتا ہی جارہا تھا۔ اس کے بعد ریڈیو ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر خبر گرم ہوگئی ۔ کوئی قیاس کر رہا تھا، کوئی تسلّی دے رہا تھا لیکن جانتا تھا کہ جھوٹی ہے۔ لڑکے کی تلاش شروع ہوئی اور جب تک اندھیرا نہیں ہوا تلاش جاری رہی۔ اس کے بعد لوگ لیمپ لے کر نکلے اور بچے کا نام پکارنے لگے۔ کوئی جواب نہ آیا۔ ایک دن گزرا، سیکورٹی کے دستے طلب کر لئے گئے۔ڈرون اڑائے گئے جو بلندیوں سے جنگل کو چھاننے لگے۔ دوسرا دن بھی گزرگیا۔ بستی کے عام لوگ بھی کام کاج چھوڑ کر اور جھاڑیاں کاٹنے والا سازو سامان لے کر ، ٹولیاں بنا کر نکل کھڑے ہوئے۔جو تھا وہ بچے کا نام پکار رہا تھا۔ اب صورت یہ تھی کہ دوسرا دن بھی ختم ہونے کو تھا، مایوسی سر اٹھانے لگی۔ سرکاری مشینری پوری طرح حرکت میں آگئی یہاں تک کہ تیسرا دن نکلا اور دلو ں کا ڈوبنا طے پانے لگاکہ اچانک شور اٹھا۔ بچے کو ڈھونڈنے والی ایک ٹولی کو بچہ نظر آگیا۔ وہ جھاڑیوں میں کہیں سے قطرہ قطرہ ٹپکنے والے پانی کی بوندیںچلّو میں جمع کرکے پینے کی کوشش کر رہا تھا۔پورے جنگل میں ہلچل مچ گئی ، اس ٹھکانے کی نشاندہی کی گئی ، امدادی جماعتیں اسی جانب لپکیں۔ بچے کو لے کر لوگ اسپتال کی طرف دوڑے ۔ اس کے علاج کی تیاری مکمل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا۔ کہیں گرا ہوگا، اس کے بدن پر خراش تھی اور پوتڑا صاف نہ تھا ، اس سے جلد سرخ ہوگئی تھی۔
جتنی دیر میں بچہ اسپتال پہنچا، بستی میں رقص شرو ع ہوگیا۔ لوگ دیوانہ وار ناچے ، کاگ اُڑے، باجے بجے ،کب سے خالی پڑے گرجا گھر میں شکر ادا کرنے والوں کا مجمع لگ گیا اور لڑکیوں نے والہانہ رقص کیا۔اس سب کے پیچھے کیا تھا۔ذرا سوچئے ، تین برس کا بچہ جو ابھی پوتڑوں میں تھا۔ اس کی زندگی،اس کا ہونا ،اس کی موجودگی، اس کا وجو د ، اس کی حیات سب اتنے ہی اہم اور گراں قدر تھے جتنے آسٹریلیا کے بڑے سے بڑے حکمراں کے قیاس کئے جا سکتے ہیں۔سچ ہے ، ایک انسان کی حیات پوری انسانیت کی حیات کے برابر ہے۔ مگر یہ بات، یہ ذرا سی بات کس کو سنائیں اور کون سنے گا۔ جس فضا اور جس ماحول میں زندگی چھن جانا اور عزّت لُٹ جانا ہر روز کا معمول ہو وہاں ہوش مندی کی گفتگو ، اندھے کنویں میں منہ ڈال کر بولنے کے برابر ہے۔مایوسی کفر ہے مگر خاموشی جرم ہے۔ مایوسی کی سزا نہیں ہوتی، جرم کی ہوتی ہے۔ تو پھر جیل سے رہائی پاتے ہی مجرم دوبارہ جرم کیوں شروع کردیتا ہے۔ ایک کو سزائے موت ہوئی تھی تو ایک ہزار کیوں معاشرے کو آزادانہ اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں؟
اب سنئے کہ قیامت آچکی ہے اور ہم عالمِ خوا ب میں ہیں۔میں تصور کرسکتا ہوں کہ جس معاشرے میں میری جڑیں پیوست ہیں وہاں تین سال کا بچہ گھر سے نکل کر سامنے جھاڑیوں میں گم ہوجائے تو اس پر ، ہم پر ، انسانیت پر اور تہذیب اور تمدن پر کیا گزرے گی۔ کوئی بچے کے گم ہوجانے پر پریشان نہ ہوگا، کوئی شور اٹھے گا نہ منادی ہوگی، کوئی رضا کار دستے جھاڑیوں میں جانے کی زحمت نہیں کریں گے۔ہاں انسان کے اس جنگل میں کتنے ہی رال ٹپکاتے بھیڑیئے نکل آئیں گے جو بچے کو جھانسا دے کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ راہ میں اس کے کچھ ساتھی بھی آن ملیں گے اور پھر جو انسانیت سوز ظلم توڑا جائے گا اور بچے کواس بے رحمی سے روندا جائے گاکہ کل فضا ،کُل ماحول ، کل منظر کانپ اٹھے گا۔ جبر ابھی جاری رہے گا، بچے کو ہلاک کیا جائے گا۔ پھر یہ نہیں کہ اس کی باقیات کہیں گڑھا کھود کر دفن کردیں، نہیں۔ پھر اس کی لاش پھینکی جائے گی تاکہ تذلیل میں کوئی کسر نہ رہ جائے بلکہ لاش کچرے کے ڈھیر پر پھینکی جائے گی۔
یہ ہے انسانی جان کی قیمت جسے انسانیت کے سوا کسی دوسرے پیمانے پر تولا نہیں جاسکتا۔ یہ ہے ایک نام نہاد پرہیز گار ،عبادت گزار معاشرے میں ایک ننھی سی جان کی قدر۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آنکھ کب تک یہ دہلا دینے والا منظر دیکھے گی، کب تک خود کو وحشیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کی داستانیں سننے کا عادی بنانا ہوگا۔ کب وہ مقام آئے گا جسے صبر کہیں، کب وہ ٹھکانا آئے گا جہاں آبرو ریزی کے قصے ہمارے اعصاب پر ہتھوڑے برسانا بند کریں گے اور کب وحشت زدہ انسان تھک ہار کر کہے گا کہ بس بہت ہوا۔اب تو جی چاہتا ہے خواب کہیں جاکر سور ہیں اور آرزوئیں تمناؤں سے گلے مل کر چپ سادھ لیں۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر