علی نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ کے روز جب قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی اور بلاول بھٹو کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور بلاول بھٹو نے عمران خان کو کہا کہ شاہ محمود کو جتنا ہم جانتے ہیں آپ ابھی جانتے ہی نہیں ہیں، آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ یہ کیا چیز ہے، عمران خان کو چاہیے کہ آئی ایس آئی سے شاہ محمود کا فون ٹیپ کرائیں کیونکہ جب گیلانی کی گورنمنٹ تھی تو یہ باہر ملکوں میں لابی کیا کرتے تھے کہ گیلانی کی جگہ مجھے وزیراعظم بنوا دو اور ہم نے ان کو اسی لیے نکالا تھا، بلاول بھٹو یہ سب باتیں جب کر رہے تھے تو فوری طور پر مجھے 2014 والا دھرنا یاد آ گیا کہ جب پارلیمنٹ کے اندر نواز شریف اینڈ کمپنی کی سانس رک رک کے چل رہی تھی تب پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں دو تقریریں کیں اور ان دو تقاریر نے جہاں ایک طرف عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا پنکچر کیا وہیں دوسری طرف چودھری نثار اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کا سارا بھانڈا بھی بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا، جیسے اعتزاز احسن نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ میاں صاحب اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں کو پہچانیں اور ان تقاریر پر جس طرح چودھری نثار نیم پاگل ہوکر کبھی کرسی سے لگتے تھے تو کبھی پارلیمنٹ کی چھت سے بالکل اسی طرز پر شاہ محمود قریشی کا حال ہوا کیونکہ عمران خان جانتے ہوں یا نہ ہوں بلاول بھٹو اور ہم ملتانی جانتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کس جماعت کے آدمی ہیں شاہ صاحب، شیخ رشید، چودھری نثار اور شہباز شریف ایک پارٹی کے لوگ ہیں جی وہی پارٹی کہ جس کی اس ملک میں پہلے دن”پاروی” ہو رہی ہے..
اگر ایک جملے میں پوچھیں کہ شاہ محمود اور چودھری نثار میں سے کون بہتر ہے تو سیدھا جواب تو یہ ہے کہ چودھری نثار علی خان اب اگلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ کیسے؟؟ چودھری نثار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے مجھ سے کئی بار یہ تقاضا کیا کہ میں عمران خان کے متعلق Below the belt جاکر بات کروں لیکن میں یہی کہتا رہا کہ میرا اور عمران خان کا بہت پرانا تعلق ہے ہم ایک دوسرے کو چالیس پینتالیس سال سے جانتے ہیں اور جتنی تعلق کی عمر ہو اسکو خراب ہونے میں بھی اتنا ہی وقت لگنا چاہیے لیکن شاہ محمود تو اس سطح کی سمجھ بوجھ اور تعلق کی پاس داری بھی نہیں رکھتے کیونکہ اگر ان میں کسی بھی قسم کی کوئی معاملہ فہمی، رواداری اور تعلق کی اہمیت کا احساس ہوتا تو انکا انکے سگے بھائی مرید حسین سے کم از کم منہ ملاحظے کا ہی تعلق ہوتا، غوث پاک کی گدی پر بیٹھ کر نوٹوں کی گڈی وصول کرنا، اور فوجی ڈگڈگی پہ ناچ کر حکومتی گدی پر بیٹھنا ہی شاہ جی کے لہو کو گرم رکھنے کے دو بہانے بھی ہے اور انکے دو انمول رتن بھی…
پیپلزپارٹی نے اس وقت میاں نواز شریف کو بھی چودھری نثار سے خبردار کیا تھا اور جو کچھ اعتزاز احسن نے اس دن پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر چودھری نثار کے متعلق کہا ایک ایک بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی لیکن وہ میاں صاحب ہی کیا کہ جن کو کوئی عقل کی بات بتائے اور وہ سمجھ جائیں جس انجام سے میاں نواز شریف دوچار ہوئے وہ سب کے سامنے ہے، یہ چودھری نثار ہی تھے کہ جو ن لیگ کی حکومت کے جہاز کے ہچکولے کھانے سے ذرا پہلے ہی نکل لیے.. جس پر معروف کالم نگار ایاز امیر نے ایک جملہ لکھا تھا کہ جہاز کے ڈوبنے کی خبر سب سے پہلے چوہوں کو ہوتی ہے اور وہ سب سے پہلے چھلانگ لگا جاتے ہیں، اگر ذرا اور ماضی میں چلے جائیں کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا جہاز بھنور کی طرف بڑھ رہا تھا تو وہاں کون تھا کہ جس کو جنابِ ایاز امیر کے کلیے میں فِٹ کیا جا سکے؟؟ وہ کون تھا کہ جس نے وزارتِ خارجہ جیسی اہم کرسی چھوڑ کر عین میمو گیٹ جیسے جان لیوا سکینڈل کے ہوتے ہوئے چھلانگ لگائی تھی؟؟ وہ یہی فاضل ممبر ملتان تھا…وہی کہ جس کا اپنا سیاسی قد کل ملا کر اتنا ہے کہ 2018 کے الیکشنز کہ جس میں PTI کو اسٹیبلشمنٹ کی وہ حمایت حاصل تھی کہ جو شاید پرویز مشرف کو 2002 والے الیکشن میں بھی حاصل نہیں تھی اس الیکشن میں شاہ محمود ملتان شہر سے کہ جہاں یہ خاندان صدیوں سے عوام پر مسلط ہے MPA کی سیٹ پر ایک تیس سالہ با صلاحیت، روشن خیال اور کارکن نوجوان سلمان نعیم کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا اور آج تک یہ نوجوان شاہ صاحب کو انکی اوقات دکھانے پر سزا بھگت رہا ہے نہ صرف سلمان نعیم بلکہ وہ پورا حلقہ کہ جہاں سے سلمان نعیم جیتے نہ اس علاقے میں سیوریج کا کام ہونے دیا جاتا ہے، ٹینڈر منظور ہونے کے باوجود سڑک نہیں بننے دی جاتی نہ ہی کچھ اور یہ سلمان نعیم کو جتانے کی وہ سزا ہے کہ جو ملتان کے گنجان آباد ترین حلقے کے لوگ صرف اس لیے بھگت رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک کام کرنے والے با صلاحیت نوجوان کو ووٹ کیا اور شاہ جی کا وزیر اعلیٰ پنجاب کا خواب پاش پاش کر دیا….
شاہ صاحب کو نہ تو اس منصب کا پاس ہے جس پر وہ براجمان ہیں نہ ہی اپنی عمر کا بلاول بھٹو اس دن ایک مناسب تقریر کر کے واپس چلے گئے تھے اتنے میں شاہ صاحب کھڑے ہوئے اور وہ لایعنی گفتگو شروع کی کہ جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر نہ ضرورت ذاتی حملوں سے لے کر بے سر و پا باتوں کی ایک متلی کہ جو دائمی بد ہضمی کا باعث بن جاتی ہے یعنی کہ ایک ایسی تقریر کہ جو دائمی مخاصمت، ذلت اور رسوائی کا باعث بنی اپنے سے عمر میں تیس سال چھوٹے نوجوان (کہ جس کو وہ بچہ کہتے رہے) سے تاریخی بے عزتی کرانے کی ذلت تو ایک طرف، اس سب کے نتیجے میں اپنا نام چودھری نثار جیسوں کی فہرست میں بھی کامیابی سے شامل کرا لیا، ایک فرق بہرحال رہا کہ چوہدری نثار کی جو درگت بنی تھی اس وقت میاں صاحب کی حکومت پر ایک مشکل ترین وقت تھا عمران خان باہر دھرنے پر بیٹھے تھے میاں صاحب اور انکے رفقا بیک فٹ پر کھیل رہے تھے مجبوری بھی آڑے تھی لیکن جس وقت میں بلاول بھٹو نے شاہ جی کی طبیعت صاف کی ہے یہ وہ وقت ہے کہ جب عمران خان انکے اپنے بقول ایک مضبوط حکومت رکھتے ہیں بجٹ کی لٹکتی تلوار بھی زنگ آلود ہو چکی تھی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، چودھری نثار نے کم از کم اپنی اسُ درگت کو دعوت نہیں دی تھی یہ صاحب تو برضا و رغبت رسوا ہوئے ہیں کہ یہی ان جیسوں کا مقدر ہے..
اگر شاہ صاحب میں تھوڑی سی بھی شرم ہوتی تو کم از کم اس پیپلزپارٹی کے متعلق وہ یہ کچھ نہ کہتے جو انہوں نے گذشتہ تین سالوں میں کہا ہے جیسا کہ بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ کل تک جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے رہے، کل تک اگلی باری پھر زرداری کا نعرہ لگاتے رہے وہ پیپلز پارٹی کہ جس نے انکو پنجاب کا صدر بنایا، وزیر خارجہ بنایا ملتان کا ضلعی ناظم بنوایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قابل بنایا کہ انکا ریٹ لگ سکے اس پارٹی کے متعلق اس طرح کی گفتگو وہی کر سکتا ہے کہ جس کے نزدیک ذاتی مفاد اور عناد سے بڑھ کر کچھ نہ ہو۔
بجلیاں جس میں ہوں، آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مِل جائیں صنم پتھر کے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر