رزاق شاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخت:
چلے ہیں اپیلیں کرنے،
درخواستیں دینے،…
ہمیں روٹی دو،
ہمیں انصاف دو،
ہمیں تعلیم دو،
ہمیں صوبے دو،
ہمیں روزگار دو،
ہمیں نوکریوں سے نہ نکالو،
ہمارے بچوں کو نہ مارو.
ارے او جاہل!!
تخت خون کی ندیوں میں تیرتا جہاز ہوتا ہے.
تخت کے دل بزدلوں کی آہوں، سسکیوں، زاریوں اور فریادیوں کے ایندھن سے چلتے ہیں.
تخت کا اپنا روزِ محشر ہوتا ہے اور اپنے ترازو اپنے مُنکر اپنے نکیر اور اپنے کاتبین اور اپنے مصاحبین ہوتے ہیں.
وہ جب چاہتا ہے قیامت بپا کر دیتا ہے جب چاہتا ہے کمزوروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے.
یہ تو کل کی بات ہے بلکہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کی بات ہے
جرمن تخت مچل گیا کہ میں تو نمیبیا کے کالے خون سے غسل کروں گا ہیررور اور ناما قبائل کے ایک لاکھ دس ہزار انسانوں کے خون سے غسل کر کے دم لیا اور پھر آرام سے سو گیا. اگلے غسل کی تیاری کرنے کے لئے کچھ دیر آرام کر لیا.
ترک تخت کا جب خون سفید ہوا تو کریمیا کو سرخ خون میں نہلا دیا…. پندرہ لاکھ آدم زادوں کا خون پیتے ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ذائقہ بدلنے کی خاطر پِھینے انڈونیشیائی سہارتو نے پانچ لاکھ انسانوں کا ساحلی خون پیش کر دیا.
کوئی فریاد کوئی التجا کوئی دعا تخت کے واروں سے بچا سکتی ہے؟
جو تاریخ ہم نے پڑھ رکھی ہے اس میں تو آج تک نہیں ہوا….
اب تمہاری نسل کی دعائیں جب رنگ لائیں تو دو چار پھول ہمیں بھی پہنچا دینا
ابھی کل ہی کی بات ہے سعدی کے شمال مشرقی ہمسائے کو نچوڑنے پہنچ گیا.
اس مشرقی ہمسائے کا کوئی سرخ، گندمی، کالی، پیلی رنگت والا ہمسایہ نہیں تھا؟
تھا!!
تو اس نے ساتھ نہیں دیا؟
ساتھ دیا…. مگر تخت والے کا
پھر
مشرقی ہمسائے نے کمر کَسی اور اپنے مغربی ہمسائے کے بندے پکڑ پکڑ کر تخت پر ذبح کرواتا رہا اور تخت نشین خون پیتا رہا.
جس طرح نیپال میں ہر پانچ سال بعد گڑھیمائی تہوار میں لاکھوں جانوروں کو دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے قربان کیا جاتا ہے
اسی طرح تخت والا بھی ہر دس سال بعد ایک کمزور ملک تلاش کرتا ہے اس کا خون پیتا ہے اپنی پیاس بجھاتا ہے.
گجرات، کشمیر کا خون تو یہ سُوپ کے طور پر پیتا ہے
سنا ہے تخت والوں کو آہیں سسکیاں، فریادیں اچھی لگتی ہیں انہیں سن کر وہ چین کی نیند سوتا ہے؟
جی بالکل
جب پیاس سے بچے بِلکتے ہیں جب مزدور جسم گرمی سے جلتے ہیں جب بھوک سے بندے مرتے ہیں تو تخت والا سکون سے سوتا ہے
جیسے 1876 سے لے کر 1902 تک
تین کروڑ کے قریب…. صرف تین کروڑ انسان فاقوں سے مار دیئے گئے اور تخت خوراک باہر بھیجتا رہا.
کہاں؟
ہمارے ہی دیش میں.
تخت جلا کر، تڑپا کر مارنے کا لطف لیتا ہے اور بُھنے گوشت کی خوشبو تو اسے ازل سے بھاتی ہے
یہ جو چھوٹے موٹے شکاری تیتر، تلور بھون کر کھاتے ہیں ان کے آباواجداد اسی تخت کے جلاد ہی تو رہے ہیں….
کبھی تخت والوں کے آگے کوئی ٹھہر سکا ہے؟
جی بالکل
زیادہ عرصہ نہیں ہوا
ایک دفعہ ایک چھوٹے سے ہمسائے کا خون پینے کے لئے تخت والے نے خنجر اٹھایا تھا کہ ہمسائے کے جوان بچوں نے تخت کا ہاتھ پکڑ لیا تھا…
ان جوانوں کے ایک بڑے قد، سرخ رنگت والے دوست نے کہا کہ بچو اس کا ہاتھ نہ چھوڑنا میں ابھی آیا…..
ایک ہی للکار سے تخت والا بھاگ گیا.
یعنی ہاتھ خود پکڑنا ہوتا ہے خنجر چھننا پڑتا ہے پھر سبھی ساتھ دیتے ہیں ہمسائے بھاگے آتے ہیں پھر تخت گرائے جاتے ہیں پھر تاج اچھالے جاتے ہیں.
یہ بھی پڑھیے:
مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد
گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد
پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد
ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر