وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل ایسے آزاد پرندے کی اڑان کے کیا کہنے! یہ محض نیلے آسمان اور بادل کی دھانی ٹکڑیوں کے بیچ مرتعش ہواؤں پر وارفتہ پرواز کا مضمون نہیں، اس میں پرانے پیڑوں، آشنا گلی کوچوں اور وہاں بسنے والوں سے رشتے کی پابستگی کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ میرؔ سے خوش نوا پرندے کا یہ عالم تھا کہ ’تری گلی میں گیا، سو گیا، نہ بولا پھر‘… خیر خواہوں کی پکار پر صدا تک نہیں دیتے تھے۔ میرؔ سے کوئی سو برس بعد ذوقؔ آئے، پھر مجھے لے چلا وہیں دیکھو، دل خانہ خراب کی باتیں۔ سو آج دل درماندہ کا فرمان ہے کہ کچھ ذکر ہو جائے انیسویں صدی کے قفقاز روس، اس کے ادیب نکولائی گوگول اور گوگول کے ناول ’مردہ روحیں‘ کا۔ روسی ادب میں گوگول کا مقام یوں سمجھیے کہ دوستوئیفسکی نے کہا تھا ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں‘۔ گوگول 1809میں پیدا ہوا اور 1852میں رخصت ہو گیا۔ گویا اسے زار الیگزانڈر دوم کی 1861کی اصلاحات دیکھنا نصیب نہیں ہوئیں جن کی مدد سے روس میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا۔ گوگول کے عرصہ حیات کے دوران غلامی قانونی تھی اور زمینداروں کو اپنے ملکیتی غلاموں پر لگان دینا ہوتا تھا۔ غلاموں کو مقامی اصطلاح میں ’روحیں‘ کہا جاتا تھا۔ جیسے ہمارے ہاں مویشیوں کی تعداد کے لئے ’راس‘ کی اکائی مستعمل تھی۔ ’ایک راس بیل، بایاں سینگ ٹوٹا ہوا…‘ روس میں کہتے تھے، ’زمیندار تارپوف نے امسال 15روحیں خریدیں‘۔ لگان کا تخمینہ مردم شماری میں درج کسی زمیندار کے ملکیتی غلاموں کی تعداد سے طے پاتا تھا۔ مردم شماری، ہمارے ملک ہی کی طرح، کبھی کبھار ہوتی تھی۔ اس دوران کئی غلام مر جاتے تھے لیکن کاغذوں میں ان کے اندراج کے مطابق لگان دینا پڑتا تھا۔
گوگول کے ناول ’مردہ روحیں‘ کا پلاٹ سادہ و پرکار ہے۔ چی چیکوف نام کا ایک سفید پوش مگر چرب زبان شخص اپنے قصبے سے نکل کر گاؤں گاؤں پھر رہا ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ زمینداروں کو غیر ضروری لگان سے نجات کا لالچ دیا جائے اور ان سے اونے پونے داموں ایسے غلام خریدے جائیں جو مر چکے ہیں۔ یوں کوڑیوں کے بھاؤ مردہ روحیں خرید کر چی چیکوف ایک بڑے زمیندار بن جائیں گے اور اس مال معدوم و مفقود کے بدلے بھاری قرضہ لے کر سٹک لیں گے۔ اگر اس سے آپ کو آج کے پاکستان میں پلاٹوں کی کاغذی فائلیں یاد آ جائیں تو مجھے الزام نہ دیا جائے۔ میں صاحبان دولت اور ارباب اختیار کے معاملات سے پناہ مانگتا ہوں۔ زرداری صاحب کی طرح میرا بھی ایک ہی بیٹا ہے (بیٹیوں کو ہم شمار نہیں کرتے)۔ منصوبے کے عین مطابق چی چیکوف صاحب نے للو پتو کر کے کوئی 400مردہ روحیں خرید لیں لیکن اس یافت کو کاغذوں میں اپنے نام منتقل کرانے وطن مالوف پہنچے تو کچھ ان دیکھے شاخسانے نکل آئے۔ اس کی تفصیل آپ ناول میں پڑھیے گا۔ درویش کی صدا تو محض یہ ہے کہ سیاست میں شفاف عوامی نمائندگی سے انحراف کیا جائے تو قوم پر مردہ روحیں مسلط ہو جاتی ہیں جو معیشت اور تمدن کے اجتماعی اہداف کی بجائے چی چیکوف کی طرح اپنی دو چپاتیوں کی فکر رکھتی ہیں۔ معیشت میں پیداواری عمل کی بجائے غیر پیداواری نمونہ اپنایا جائے تو ملک چی چیکوف کے ان قرابت داروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جنہیں قرضے، ٹیکس چوری اور استحصالی اجارے سے غرض ہوتی ہے۔ تمدن میں اگر علم کی تخلیق اور اقدار کی ہمہ وقت کانٹ چھانٹ کی بجائے طرز کہن اور تقلید پر اصرار کیا جائے تو معاشرت کے ہموار ارتقا میں خلل آ جاتا ہے۔ انسانی سرمائے کا معیار گر جاتا ہے۔ شہری، گروہ اور اداروں میں اعتماد کا سائبان آندھیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
آئیے پاکستان کا سیاسی نقشہ دیکھیں۔ کل چار فریق ہیں۔ پہلا فریق اس ملک کے 22کروڑ 30لاکھ عوام ہیں جن کی تعداد میں ہر گھنٹے 600کا اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا ملک کو ہر گھنٹے ایک نیا اسپتال اور کم از کم دو نئے اسکول درکار ہیں۔ اسکول سے محروم بچوں کی تعداد نائجیریا کے بعد سب سے زیادہ یعنی قریب اڑھائی کروڑ ہے۔ نوزائیدہ بچوں اور دوران زچگی مائوں میں اموات کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک کروڑ بےروزگار افراد اور قریب 9فیصد افراطِ زر سے جونجھتے افتادگان خاک میں کیسا سیاسی شعور اور کہاں کا تمدنی مکالمہ؟ سیاسی قیادت میں دو بنیادی دھارے ہیں۔ ایک قلیل گروہ سیاسی بصیرت سے بہرہ مند ہے مگر اس قبیلے کی نبض جاننا ہو تو ایوان بالا کی حالیہ تشکیل نو پر نظر ڈالیے۔ حاصل بزنجو اور مشاہداللہ خان انتقال کر گئے۔ پرویز رشید کو بلطائف الحیل انتخاب نہیں لڑنے دیا۔ فرحت اللہ بابر انتخاب ہار گئے۔ حامد خان اپنی جماعت کے سینئر نائب صدر ہیں لیکن نگہ انتخاب فیصل واوڈا پر پڑتی ہے۔ تیسرا فریق از رہ احتیاط الیکٹ ایبل کہلاتا ہے، درحقیقت گوگول کی مردہ روحیں ہیں۔ بلاول بھٹو گزشتہ دنوں مردہ روحیں خریدنے ہی جنوبی پنجاب آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) میں دو بیانیوں کا بحران نہیں، مردہ روحوں کے حق ملکیت پر اندیشے لرز رہے ہیں۔ گوگول کا چی چیکوف مردہ روحیں خرید کر اپنے قصبے میں پہنچا تو ان گرگوں سے واسطہ پڑا جو ہماری سیاست کا چوتھا فریق ہیں۔ نام لے کر نشاندہی کرنا مشکل ہے ۔ انگریزی شاعری سے دو اشارے پیش کرتا ہوں۔ جان ڈن نے The Relicمیں لکھا Thou shalt be a Mary Magdalen, and I a something else therebyدیکھیے جان ڈن نے فریق ثانی کا نام نہیں لیا۔ ٹی ایس ایلیٹ بھی ویسٹ لینڈ میں نگہ نیم باز ہی پر ٹھہر گئے۔ Who is the third that walks always beside youجہاں ایسے کوہ قامت لکھنے والوں کے پر جلتے ہوں وہاں درویش کی کیا مجال کہ ’مردہ روحوں‘ کے حقیقی آڑھتیوں پر انگلی رکھے۔ پڑھنے والا صاحب نظر ہے۔ مدبر، چی چیکوف کی زنبیل اور فصیل شہر کی پہچان کر لے گا۔ اختر حسین جعفری یاد آ گئے
خزاں کا پانی نئے معانی نہیں سمجھتا
سو نہر اب تک پرانے پہرے میں چل رہی ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر