عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیا جامع نصاب تحقیق کے بعد تشکیل دیا گیا ہے، جسے اب نافذ ہونا چاہیے لیکن مختلف حلقوں سے اٹھنے والے اعتراضات نئے نصاب اور یکساں نظام تعلیم کے پراجیکٹ کو نفاذ سے قبل متنازعہ بنا چکے ہیں۔ حکومت سندھ تو اسے ‘نصاب مارشل لاء‘ کا نام دے کر مسترد کر چکی ہے۔
اعتراض کئی ہیں۔ نصاب میں شامل کردہ خاکوں میں بچیوں کو فرش پہ بیٹھے دکھایا گیا ہے، بہت سے اعتراضات تو اسی پر ہیں۔ پہلی دوسری جماعت کی کتاب کے سرورق پہ بچی باحجاب کیوں ہے بعض کو اس پہ اعتراض ہے۔ کچھ کو وہ خاکہ کھٹک گیا جس میں لڑکی کھیل رہی ہے اور لڑکا پڑھ رہا ہے۔ یہ تو خاکوں پہ اعتراض تھے۔
نصاب کے مواد پر بھی کئی سوال کیے جا رہے ہیں، جیسا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی کارکردگی پر سوال ، ایک لڑکی کی دن بھر کی مصروفیات کا چارٹ وغیرہ۔ مخلتف حلقے نئے یکساں قومی نصاب کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کو یہ اعتراضات بہت سطحی لگ رہے ہیں، بعض کہتے ہیں پچھلے نصابوں کے مقابلے میں یہ تھوڑی بہت بہتری بھی غنیمت ہے اور بعض اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر یکسر مسترد کررہے ہیں۔
اس بہت سارے شور میں ایک اعتراض ایسا ہے، جس کا دفاع مذہبی طور پر جذباتی لوگ خوب کر رہے ہیں۔ یہ اعتراض پاکستان کے معروف سماجی کارکن اور سائنسدان پرویز ہود بھائی نے اٹھایا ہے۔ حرف بہ حرف ان کا اعتراض یہ ہے کہ ‘بچے کو ناظرے کے ساتھ اب معانی بھی یاد کرنا ہوں گے، حدیثیں اور دعائیں بھی سیکھنی ہوں گی، دماغ میں اتنی گنجائش ہوتی ہی نہیں، جنہیں ایک زبان نہیں آتی انہیں عربی بھی سیکھنا ہو گی۔ بچے کے چھوٹے سے دماغ کو ایک سمت لگایا ہوا ہے، آپ اسے جنبش نہیں دے رہے یہ بتا رہے ہیں کہ جو رٹو طوطا ہے بس اسے اچھے نمبر ملیں گے‘۔
خود اپنے آپ کو کھنگالا کہ ہاں بھئی بچپن میں اضافی معلومات ٹھونسنے کا کتنا کوئی بوجھ محسوس ہوا تو اس نتیجے پہ پہنچی کہ بچپن میں جو ایک بار نانی دادی یا امی نے کوئی روایت یا بچوں کا گیت دہرا دیا، کوئی آیت یاد کرا دی، ہم نے خود ٹی وی پہ کوئی گانا سن لیا یا کسی مجلس میں نوحے مرثیے سنا لیے، وہ آج بھی ایسے یاد ہیں جیسا ابھی ابھی رٹا لگایا ہو۔
میں انگلش میڈیم میں پڑھی مگر تیسری جماعت میں چھ کا پہاڑا ٹیوشن والی باجی نے غلطی سے اردو میں یاد کرا دیا وہ آج بھی دماغ میں ویسے ہی پھنسا ہوا ہے، جیسے ٹیپ ریکارڈ میں کوئی کیسٹ۔
کلاس کے ساتھی میمن گجراتی بولنے والے بچے تھے سو وہ زبان سمجھ آنے لگی، گھر میں اردو بولی گئی سو وہ بولنے لگے، دادی نے عربی میں قرآن پڑھایا تو وہ بھی پہلے کچھ اٹک کر اور پھر روانی میں پڑھ لیا، یاد ہونے لگا۔ اسکول میں انگریزی پڑھی سو وہ بھی آتے آتے آگئی۔ میٹرک تک سندھی لازمی پڑھی تو وہ بھی اتنی آگئی کہ سندھی سے بنیادی مانوسیت ہو گئی۔
ہمارا نصاب، اساتذہ، اسکول کا ماحول اور گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ انگریزی پہ عبور پاتے وہ پیشہ ورانہ ماحول سے سیکھی، عربی یا سندھی زبان ایسی سیکھی کہ گزارے کے لیے ان سے شناسائی ہو گئی۔
ہوسکتا ہے ایسا سب کے ساتھ نہ ہوتا ہو، تو کیا واقعی پرائمری اسکولوں میں مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بچے کو پڑھائی جائے جیسے کہ انگلش، اردو، عربی وغیرہ تو یہ اس کے ننھے سے دماغ پہ اضافی بوجھ ہوتا ہے جو اسے رٹا لگانے پہ مجبور کردے اور دیگر علوم کے حصول کے راستے میں رکاوٹ بن کر حائل ہو جائے۔
یہ سوال میں نے مڈسوئیڈن یونیورسٹی، سنڈسویل میں انگلش لینگوسٹکس کی سینئر لیکچرار ڈاکٹر عالیہ عامر کے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر عالیہ نے لینگوئج اینڈ کلچر ان یورپ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے جبکہ کلاس روم میں دو مختلف بولیوں میں تبادلہ اور مکالمہ، لینگوئج پولیسنگ کے موضوع پر ان کا خاص عبور ہے۔ اس گتھی کو ان سے بہتر کون سلجھا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ نے بڑے تحمل سے ہود بھائی کا اعتراض، ان کے اعتراض پہ میرے سوالات سنے پھر کہنے لگیں، ‘ علم لسانیات میں پہلی زبان وہ ہے جو بچہ تقریباً تین سال کی عمر تک حاصل کرتا ہے، یہ مادری زبان ہے، پہلی زبان ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں مثلاً اگر کسی بچے کے ماں باپ گھر میں بلوچی اور سرائیکی بولتے ہوں اور بچے سے دونوں زبانوں میں بات کریں تو وہ دونوں سیکھے گا۔ ابتدا ء سے ہی کثیر السانیات ہونے کے علمی، ذہنی اور ثقافتی فوائد ہیں۔ بچے کی عمر کے حساب سے اس کے دماغ کو جتنا استعمال کریں، اس میں اتنی ہی وسعت آئے گی۔
جو زبان، بولی تین سال کی عمر کے بعد حاصل کی جائے اسے دوسری زبان کہا جاتا ہے۔ بچے پیدائش کے بعد سے دو یا زیادہ زبانوں کو حاصل کرنے، ان کے الفاظ ذخیرہ کرنے اور زبانوں کے درمیان فرق پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کا حافظہ ماں کے پیٹ سے زبان، الفاظ کی صوتیات کو حفظ کر سکتا ہے، وہ ماں کی آواز پہچان سکتا ہے، اپنی اور پردیسی زبان میں تفریق کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ نے نئی زبان سیکھنے کے حوالے سے بچے کی فطری صلاحیت پر بڑی سیر حاصل بات کی، میں نے پھر سوال نئے سرے سے پوچھ لیا کہ اگر بچہ نئی نئی زبانیں سیکھ سکتا ہے تو پھر تعلیم کس زبان میں ہو۔
ڈاکٹر عالیہ نے بتایا، ”بچے کی بہترین تعلیم اس کی پہلی زبان میں ہے یہ تحقیق سے ثابت ہے اور یونیسکو کے مطابق یہ بچے کا بنیادی حق ہے۔ دیگر زبانوں کا حصول بھی تب ہی بہتر ہوگا جب بچہ اپنی مادری زبان میں مضبوط ہو گا۔‘‘
ڈاکٹر عالیہ عامر کی وضاحت سے یہ دھند تو چھٹی کہ مادری زبان کے علاوہ دوسری یا تیسری زبان کی تعلیم و تدریس ایک بچے پہ بوجھ نہیں ہوتی، ہاں یہ امر اہم ہے کہ نئی زبان کس عمر میں سیکھائی جائے گی۔ بچے کا دماغ اگرچہ سائز میں ننھا سا ضرور ہوتا ہے مگر اس میں نئی نئی چیزیں، باتیں، ہدایات، زبانیں سیکھنے، سمجھنے اور دماغ کی ان گنت فائلوں میں انہیں محفوظ کرنے کی فطری صلاحیت بہت منفرد ہوتی ہے، اس لیے اس پر زیادہ بوجھ ڈالنے کے بجائے بالخصوص پرائمری تعلیم تک بنیادی باتیں ہی بتانا چاہییں۔
یورپی ممالک میں بچے چھ برس کی عمر تک کنڈر گارٹن ہی جاتے ہیں اور بچہ پہلی کلاس میں چھ یا سات برس کی عمر میں جاتا ہے۔ تب تک اسکول میں اس پر لکھنے کے لیے دباؤ تک نہیں ڈالا جاتا ہے۔ یہ بات سائنسی اعتبار سے بھی واضح ہے کہ جو بچے آٹھ یا نو سال کی عمر میں نئی چیزیں سیکھنا شروع کرتے ہیں ان کے سیکھنے کا عمل بھی تیز ہوتا ہے اور منطقی اعتبار سے ان کی صلاحتیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر