نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چولستان میں یونیورسٹی کی ضرورت||ظہور دھریجہ

ڈاکٹر رفیق مغل کی چولستان کے بارے میں تحقیق سب سے زیادہ ہے ۔ وہ اپنے کام کو آگے بڑھا رہے تھے مگر نہ جانے کیوں ان کے کام کو روک دیا گیا ۔ سرائیکی وسیب کا ایک جرم یہ ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں ہے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہا ہے کہ وسیب کے مسائل وسیب میں حل ہوں گے۔ سول سیکرٹریٹ کو فنکشنل کر دیا گیا ہے اور سیکرٹریز کو مکمل طور پر با اختیار بنا دیا گیا ہے۔ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ کے عرس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ وسیب کو اربوں کے فنڈز دیئے گئے ہیں اور سول سیکرٹریٹ کے رولز آف بزنس منظور ہو چکے ہیں۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ بجا مگر حکومت اپنے وعدے کے مطابق صوبے کیلئے اقدامات کرے کہ صوبے کا متبادل سول سیکرٹریٹ نہیں ہو سکتا۔
سول سیکرٹریٹ نہ تو وسیب کے لوگوں نے مانگا اور نہ ہی عمران خان نے اُس کا وعدہ کیا۔ وعدہ صوبے کا تھا، اصولی طور پر اُس کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے وسیب کیلئے متعدد یونیورسٹیوں کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا ہے کہ ہم چولستان پر تحقیق اور ریسرچ کیلئے چولستان سنٹر قائم کر رہے ہیں لیکن اصل ضرورت چولستان یونیورسٹی کی ہے کہ چولستان پاکستان کا ایک ایسا گم شدہ خزانہ ہے جس کی طرف آج تک کسی کی نظر نہیں گئی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان پاکستان کا وسیع اور خوبصورت صحرا ہے ۔
اس کے بہت سے اضلاع آتے ہیں ، لیکن صحرا کا سب سے بڑا حصہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان پر مشتمل ہے ۔ یہ صحرا قدیم وادی ہاکڑہ کا اہم حصہ ہے ، جس پر مزید تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ صحرا کے آثار کو بچانے اور اس پر تحقیق اور ریسرچ کرنے کی بجائے شکاریوں نے اس کے حسن کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے ۔
پاکستانی شکاریوں کے علاوہ چولستان پر سب سے بڑا عرب شکاریوں نے کیا اور اس صحراء کے قیمتی جانوروں اور پرندوں کو ختم کر کے رکھ دیا ۔ چولستان کی قدامت بارے ابن حنیف لکھتے ہیں کہ ’’قدیم تہذیبی و تمدنی اثار کے حوالے سے وسیب میں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت بہاولپور کے علاقے چولستان کو حاصل ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف ادوار ہاکڑہ عہد ، ابتدائی ہڑپائی دور ،عروج یافتہ ہڑپائی دور ، متاخر ہڑپائی دور اور خاکستری سفالی عہد سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ آثار وہیں سے ملے ہیں جبکہ چولستان سے ہی ملنے والے بعد کے ابتدائی تاریخی ،وسطی ( مسلم ) عہد اور بعد کے آثار ان کے علاوہ ہیں ۔
‘ ‘
ماہرین آثاریات نے مختلف اوقات میں چولستان کے قدیم آثار تلاش کئے ہیں ، ان میں یہ قابل ذکر ہیں ، سر آرل سٹائن نے 1941ء میں چولستان میں آثار قدیمہ تلاش کئے ، ان کے بعد ڈاکٹر ہنری فیلڈ نے 1955ء ، ڈاکٹر رفیق مغل نے 1974ء سے 1977ء ، محمد صدیق ، محمد حسن نے 1992ء میں چولستان کا دورہ کیا ۔ ان میں سب سے اہم انکشافات سے پُر اور تفصیلی کام ڈاکٹر رفیق مغل کا ہے۔ تحقیقات کے ذریعے جو آثار دریافت ہوئے۔ ماہرین آثاریات کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے عمل کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تو اس علاقے سے بہت سے آثار قدیمہ دریافت ہو سکتے ہیں کہ وادی ہاکڑہ کی تہذیب سے ہی ہڑپہ اور موہنجو دڑو جیسی بڑی تہذیبیں پیدا ہوئیں۔
ڈاکٹر رفیق مغل کی چولستان کے بارے میں تحقیق سب سے زیادہ ہے ۔ وہ اپنے کام کو آگے بڑھا رہے تھے مگر نہ جانے کیوں ان کے کام کو روک دیا گیا ۔ سرائیکی وسیب کا ایک جرم یہ ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں ہے ۔ وسیب سے اسمبلیوں میں جانے والوں کی حیثیت بے زبان جانور سے زیادہ نہیں کہ وہ بولتے ہی نہیں ۔ ان کو علم ہی نہیں آثار قدیمہ کی کیا اہمیت ہوتی ہے ۔ان کے علاوہ ریاست بہاولپور کے فرمانروا اور موجودہ نواب زادگان نے بھی اس خطے سے سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود تحقیق کے حوالے سے اس خطے کو کچھ نہیں دیا ۔
جب ہم ڈاکٹر رفیق مغل کی تحقیق کو دیکھتے ہیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ انہوںنے اتنا بڑا کام کر دیا ۔ وہ اس خطے کے نہ ہوتے ہوئے بھی اس خطے کے محسن ہیں ۔ وسیب سے محبت کرنے والے لوگ اور طالب علم ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ محکمہ آثاریات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رفیق مغل نے چولستان میں دریائے ہاکڑہ کے ساتھ ساتھ چار سو اسی کلومیٹر تک قدیم مقامات کی تلاش کا کام سر انجام دیا ۔ چولستان کا رقبہ پچیس ہزار چھ سو تیرا مربع کلومیٹر ہے ۔
آج کل تویہ صحرائی علاقہ ہے جہاں سالانہ بارش کا اوسط پانچ انچ سے بھی کم ہے اور وہ بھی یقینی نہیں مگر ہزاروں برس قبل چولستان کی آب و ہوا اور طبعی ماحول کی صورتحال بالکل مختلف تھی ۔ڈاکٹر رفیق مغل نے چولستان میں چار مختلف مرحلوں میں کام کیا ۔پہلے مرحلے میں وہ نومبر ،دسمبر 1974ء کو چولستان آئے اور 120 مقامات تلاش کئے ۔ پھر 1975ء میں ایک ماہ چولستان میں رہے اور 80 مقامات تلاش کئے ۔
1976ء میں ڈیڑھ ماہ کے دوران انہوں نے 161مقامات تلاش کئے اور پھر چوتھے اور آخری مرحلے کے دوران 1977ء میں 63 مقامات دریافت کئے ۔اس طرح انہوں نے چولستان میں ان چار مراحل کے دوران کل چار سو چوبیس پرانے مقامات دیکھے اور ریکارڈ کئے ۔ چولستان کے مذکورہ بالا 424 آثار کا تعلق آج سے تقریباً ساڑھے پانچ یا چھ ہزار سال قبل سے لیکر ابتدائی ،تاریخی ، وسطی اور ما بعد عہد تک ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author